Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بارکھان میں تہرا قتل، صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران گرفتار

بلوچستان کے وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران کو بارکھان میں تین افراد کے قتل کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا۔
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے تصدیق کی ہے کہ صوبائی وزیر کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔
پولیس ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ سردار عبدالرحمان کھیتران پولیس حکام سے ملنے ڈی آئی جی پولیس کوئٹہ کے دفتر گئے تھے جہاں سے انہیں حراست میں لے کر دفتر سے ملحقہ بجلی روڈ تھانے منتقل کردیا گیا۔
کرائم برانچ پولیس صوبائی وزیر سے  تفتیش کررہی ہے-
دوسری جانب تینوں لاشوں کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آ گئی ہے جس کے مطابق خاتون کی لاش 40 سالہ گراں ناز کی نہیں بلکہ ایک سترہ سے 18 برس کی لڑکی ہے جسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنائےجانے کا انکشاف ہوا ہے۔
ان لاشوں کو سول ہسپتال کوئٹہ میں کیا گیا جہاں سرجن عائشہ فیض نے لاشوں کا پوسٹ مارٹم کیا۔
ڈاکٹر عائشہ فیض کے مطابق ’لڑکی کو سر میں تین گولیاں ماری گئی ہیں۔ شناخت چھپانے کے لیے چہرے کو مسخ کیا گیا ہے۔‘
قبل ازیں پولیس نے ماں اور دوبیٹوں کے قتل کا مقدمہ دو روز بعد بارکھان پولیس تھانے میں نامعلوم افراد کے خلاف درج کر لیا تھا۔ ایس ایچ او فداللہ کی مدعیت میں درج مقدمے میں قتل اور شواہد مٹانے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد کیس مزید تفتیش کے لیے کرائم برانچ کے حوالے کردیا گیا ہے۔ جبکہ واقعہ کی تحقیقات کے لیے ایک اور خصوصی تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس کی سربراہی ایڈیشنل آئی جی جواد ڈوگر کریں گے۔
چار رکنی ٹیم میں ڈی آئی جی کرائم برانچ وزیر خان ناصر، ڈی آئی جی کوئٹہ غلام اظفر مہیسر، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ اسد ناصر شامل ہوں گے۔
آئی جی پولیس کے مطابق بارکھان واقعہ کی غیر جانبدرانہ تحقیقات ہوں گی ، جو بھی ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی، قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔

گراں ناز کے شوہر خان محمد مری کے مطابق ان کے ایک بیٹی اور چار بیٹے اب بھی کھیتران کے قید میں ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)

واقعہ کب پیش آیا؟

جنوبی پنجاب سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع بارکھان کے علاقے حاجی کوٹ میں ایک کنویں سے پیر کی رات کو تین افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کی شناخت 40 سالہ گراں ناز، 22 سالہ محمد نواز اور 15 سالہ عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی تھی۔
مقتولین کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ تینوں افراد بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے بلوچستان کے وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔
گراں ناز کے شوہر خان محمد مری کے مطابق ان کے ایک بیٹی اور چار بیٹے اب بھی قید میں ہیں جن کی جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
پولیس اور محکمہ داخلہ بلوچستان کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا ہے کہ مغویوں کی بازیابی میں بھی پیشرفت ہوئی ہے اور اس سلسلے میں جلد تفصیلات سامنے لائی جائیں گی۔
اس قبل واقعے کی اعلٰی سطح پر تحقیقات شروع کا آغاز کر دیا گیا تھا اور انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی لورالائی سلیم لہڑی بارکھان پہنچ گئے تھے۔
ایس پی بارکھان نور محمد بڑیچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’خان محمد مری کے بچوں کی بارکھان سے ملحقہ ضلع کوہلو میں موجودگی کی اطلاع ملی ہے جس پر ان کی سربراہی میں پولیس ٹیم کوہلو پہنچ گئی ہے۔‘

مقتولین کے لواحقین نے الزام لگایا ہے کہ تینوں افراد عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل میں قید تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

ان کا کہنا ہے کہ ’ضلع موسیٰ خیل کے پولیس سربراہ بھی ٹیم کے ہمراہ ہیں۔ ابھی تک بچے بازیاب نہیں ہوئے، تاہم ہائی پروفائل کیس کی اعلٰی سطح پر تحقیقات جاری ہیں۔‘
اس سے قبل سوشل میڈیا پر کوہلو کے ایک وڈیرے جلات خان ژنگ کے نام سے بلوچی زبان میں آڈیو پیغام جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’رات کو میں ان کی (خان محمد مری) اہلیہ، بیٹی اور ایک بیٹے کو اپنے گھر لے آیا ہوں۔‘
’جو خاتون قتل ہوئی تھیں وہ ان کی اہلیہ نہیں بلکہ کوئی اور تھی۔ یہ خاتون اور بچے ہمارے گھر پر ہیں باقیوں کو بھی ہم ڈھونڈ رہے ہیں۔اللہ خیر کرے گا۔‘
کوہلو کے صحافی یوسف مری نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ بیان جلات خان ژنگ کے ایک قریبی شخص غلام ژنگ نے سوشل میڈیا پر جاری کیا تھا، تاہم اب جلات خان ژنگ اپنے بیان سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔‘
یوسف مری کے مطابق ’جلات خان ژنگ کے بڑے بھائی رب نواز ژنگ نے کہا ہے کہ بچے ہمارے پاس نہیں لیکن ہم ان کی بازیابی کے لیے کوشش کررہے ہیں۔‘
کوئٹہ میں مغویوں کی بازیابی کے لیے جاری دھرنے کی سربراہی کرنے والے مری اتحاد کے جنرل سیکریٹری جہانگیر مری کا کہنا ہے کہ ’ہمیں مختلف ذرائع سے پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں کہ تین بچے حوالے کردیں گے آپ دھرنا ختم کریں باقی دو بچے بھی بعد میں آپ کے حوالے کر دیے جائیں گے لیکن ہم پانچوں بچوں کی بازیابی سے پہلے تک احتجاج سے نہیں اٹھیں گے۔‘

شیئر: