Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں ’مغوی بچوں کی بازیابی کے لیے‘ صوبائی وزیر کے گھر پر چھاپہ

واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی گئی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
بلوچستان کے ضلع بارکھان میں ماں اور دو بیٹوں کے قتل کے خلاف کوئٹہ میں لواحقین کا میتوں کے ہمراہ احتجاجی دھرنا جاری ہے۔
لواحقین نے صوبائی وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کی برطرفی، گرفتاری اور قتل کا مقدمہ درج ہونے اور مغوی بچوں کی بازیابی تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
ادھر کوئٹہ کے علاقے پٹیل باغ میں میں پولیس نے بلوچستان کے وزیر تعمیرات و مواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران کے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔
 پولیس کا کہنا ہے کہ ’چھاپہ پانچ بچوں کی بازیابی کے لیے مارا گیا۔‘ پولیس ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پٹیل باغ میں سردار عبدالرحمان کھیتران کے تین بنگلوں کے مختلف حصوں کی تلاشی لی گئی تاہم کوئی برآمدگی نہیں ہوئی۔‘
پولیس نے تصدیق کی کہ ’چوبیس گھنٹے گزرنے کے باوجود واقعے کا ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا۔‘
بارکھان واقعے کے خلاف لواحقین اور مری قبائل کے افراد میتیں لے کر بارکھان سے کوہلو اور پھر 500 کلومیٹر کا سفر طے کرکے کوئٹہ پہنچے جہاں زرغون روڈ پر وزیراعلٰی ہاؤس کے قریب ریڈزون پر میتوں کے ہمراہ دھرنا دیا جارہا ہے۔
 دھرنے میں مقتولین کے لواحقین کے علاوہ خواتین، مختلف سیاسی و سماجی کارکن اور رہنما بھی شریک ہیں۔
دھرنے کی قیادت کرنے والے آل پاکستان مری اتحاد کے جنرل سیکریٹری میر جہانگیر مری نے کہا کہ ’ہمارا سب سے بڑا مطالبہ باقی پانچ بچوں کی بحفاظت بازیابی ہے جن کی جانوں کو اس وقت شدید خطرات لاحق ہیں۔‘
 ان کا کہنا ہے کہ ’ہم اپنے ساتھ بستر اور راشن لے کر آئے ہیں جب تک بچوں کو بازیاب نہیں کرایا جاتا چاہے دس دن بھی گزر جائیں دھرنا جاری رہے گا۔‘
’ہمیں بلوچستان حکومت پر اعتماد نہیں، وزیراعظم شہباز شریف آکر لواحقین کو یقین دہانی کرائیں۔ صوبائی وزیر عبدالرحمان کھیتران کے خلاف تہرے قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کیا جائے اور وزارت سے برطرف کیا جائے۔

مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں نے دھرنے کے شرکا سے اظہار یکجہتی کیا (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے کہا کہ ’سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل کو مسمار کیا جائے اور واقعے کی عدالتی تحقیقات کرائی جائیں۔‘
احتجاج میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں نے آکر یکجتی کا اظہار کیا۔
بلوچستان بار کونسل نے واقعے کے خلاف بدھ کو بلوچستان بھر میں عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل مقتولین کی لاشیں بارکھان سے کوہلو منتقل کی گئیں جہاں ان کی نماز جنازہ میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد احتجاج بھی کیا گیا۔
واقعے کی گونج بلوچستان اسمبلی میں بھی سنی گئی۔ صوبائی وزیر تعلیم نصیب اللہ مری اور میر زابد علی ریکی نے احتجاجاً بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا اور واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
محکمہ داخلہ بلوچستان نے تہرے قتل کے واقعے کی تحقیقات کے لیے پانچ رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی ہے۔
جے آئی ٹی میں ڈی آئی جی پولیس لورالائی، ایس ایس پی انویسٹی گیشن کوئٹہ پولیس، ڈپٹی کمشنر بارکھان اور سپیشل برانچ کے نمائندے شامل ہوں گے۔

ضلع بارکھان میں قتل ہونے والی ماں اور دو بیٹوں کی نماز جنازہ کوئٹہ میں ادا کی گئی (فوٹو: اردو نیوز)

سرکاری بیان کے مطابق ’وزیراعلٰی بلوچستان کی ہدایت پر صوبائی وزیر داخلہ میر ضیا لانگو کی زیرصدارت اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں بارکھان واقعے کے تمام پہلوؤں اور دھرنے سے پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔‘
کمشنر کوئٹہ اور ایس ایس پی آپریشنز کی جانب سے اجلاس کو دھرنے کے شرکا سے ہونے والی بات چیت پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں دھرنے کے شرکا کی جانب سے پیش کیے گئے مطالبات پر بھی غور کیا گیا۔
صوبائی وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو کا کہنا ہے کہ ’واقعے میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ وزیراعلٰی نے یقین دلایا ہے کہ لواحقین کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔‘
اجلاس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خان محمد مری کے دیگر مغوی بچوں کی جلد سے جلد باحفاظت بازیابی کی یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔
یاد رہے کہ پنجاب سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع بارکھان میں پیر کو تین افراد کی لاشیں ملی تھیں جن کی شناخت 40 سالہ گرناز اور ان کے دو بیٹوں محمد نواز اور عبدالقادر کے ناموں سے ہوئی تھی۔
یہ افراد صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران کے سابق محافظ خان محمد مری کی اہلیہ اور بیٹے تھے۔

بلوچستان بار کونسل نے واقعے کے خلاف بدھ کو بلوچستان بھر میں عدالتی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے (فائل فوٹو: بلوچستان ہائی کورٹ)

خان محمد مری نے الزام لگایا کہ ’ان کی اہلیہ اور دونوں بیٹے چار برسوں سے صوبائی وزیر کی نجی جیل میں قید تھے۔
مقتولہ گرانا کی چند روز قبل ایک ویڈیو بھی وائرل ہوئی تھی جس میں انہوں نے خود اور اپنے بچوں کو سردار عبدالرحمان کھیتران کی نجی جیل سے آزادی دلانے کی اپیل کی تھی۔
خان محمد مری کا دعویٰ ہے کہ ’ان کے مزید چار بیٹے اور ایک بیٹی اب بھی نجی جیل میں قید ہیں جن کی جانوں کو خطرہ ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سردار عبدالرحمان کھیتران اور ان کے بیٹے انعام کھیتران کے درمیان تنازعے میں گواہی نہ دینے پر انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔‘
دوسری جانب سردار عبدالرحمان کھیتران نے تہرے قتل اور نجی جیل کے الزامات کو رد کیا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان کا اپنا ہی بیٹا انہیں بدنام کرنے اور اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے اور ساری سازش میں وہ ملوث ہے۔اور وہ یہ سب کچھ سرداری حاصل کرنے کے لیے کررہا ہے۔‘
صوبائی وزیر نے واقعے کی شفاف تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ’وہ اس سلسلے میں مکمل تعاون کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میں ذمہ دار نکلا تو سزا بھگتنے کے لیے تیار ہوں۔‘
عبدالرحمان کھیتران کے بیٹے انعام شاہ کھیتران کا کہنا ہے کہ ’ان کے والد نے بے گناہ افراد کو نجی جیل میں قید کر رکھا تھا جن میں سے ایک خاتون کی ویڈیو بنا کر انہوں نے سوشل میڈیا پر چلوائی جس کے بعد خاتون اور ان کے بیٹوں کو قتل کردیا گیا۔

شیئر: