Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مغرب ایرانی حکومت گرانے میں عوام کا ساتھ دے: رضا پہلوی

1979 میں شاہ ایران محمد رضا پہلوی کی حکومت گرائی گئی تھی (فوٹو: اے ایف پی)
شاہ ایران کے بڑے بیٹے محمد رضا شاہ پہلوی نے مغربی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ ایرانی حکومت کے خاتمے کے لیے ہونے والی کوششوں کا ساتھ دیں۔
عرب نیوز کے مطابق رضا پہلوی جو آج کل یورپ میں ہیں اور اپنے ملک کے نوجوان سماجی کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہتے ہیں، نے اخبار دی گارڈین سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کو ایران کی پاسداران انقلاب فورس کو دہشت گرد تنظیموں میں ڈالنا چاہیے اور ایرانی حکومت کی جانب سے انٹرنیٹ پر عائد بندشیں ختم کروانے میں عوام کی مدد کرے۔
’اس وقت انقلاب کی سی کیفیت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ ’مارو یا مر جاؤ‘ والا معاملہ ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ایران میں عوام آج آمریت مردہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں گولیاں ماری جا رہی ہیں، اگر گولیوں سے بچ جائیں تو قید کر دیے جاتے ہیں اور سخت تشدد کے بعد سزائے موت دے دی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ کھڑے ہیں۔‘
رضا پہلوی کے مطابق ’دنیا کو عام ایرانیوں کا ساتھ دے کر اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
رضا پہلوی جن کو اکثر ولی عہد بھی کہا جاتا ہے، کا کہنا تھا کہ ’اگر تہران کی حکومت پر بیرون ملک اور اندر سے زیادہ دباؤ ڈالا جائے تو اصلاح پسند سیاست اور پاسداران انقلاب اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ اب تک مغربی حکومتیں اس وجہ سے پاسداران انقلاب پر پابندیاں لگانے سے کتراتی رہی ہیں کہ کہیں اس سے ممکنہ مشترکہ پلان آف ایکشن یا جوہری معاہدے کا معاملہ متاثر نہ ہو جائے۔

رضا پہلوی کا کہنا تھا کہ مغرب کو ایرانی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے (فوٹو: اے ایف پی)

’پاسداران انقلاب ایک فوجی ملیشیا ہے جو ملک کے تمام وسائل اور معاملات کا کنٹرول رکھتی ہے مگر اس کا فائدہ صرف اس کے اعلٰی عہدیدار ہی اٹھاتے ہیں۔‘
رضا پہلوی کا کہنا تھا کہ پاسداران انقلاب کے نچلے رینکس کے اہلکاروں کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا وہ جبر کے ایک آلے کے طور پر استعمال ہونا چاہتے ہیں یا پھر سمجھتے ہیں کہ حکومت ختم ہونے والی ہے۔ ان کو انہیں سچ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنی قوم میں واپس لوٹ جانا چاہیے۔
’میرے خیال میں نچلے درجے کے فوجی اہلکار حکومت سے دور ہیں اور الگ ہو جائیں گے لیکن اس کے لیے مغربی ممالک کی جانب سے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘
رضا پہلوی نے ایران سے اس وقت جلاوطنی اختیار کی تھی جب ان کی عمر 17 برس تھی۔

 


ایران میں پولیس حراست میں خاتون کی ہلاکت کے بعد سے احتجاج جاری ہے (فوٹو: اے پی)

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایران کے مستقبل کے سیاسی منظر نامے کے لیے ایک چارٹر بھی مرتب کر رہے ہیں جو جمہوری اصولوں پر مشتمل ہو گا اور اس کے لیے کارکنوں کو بھی تیار کر رہے ہیں۔
انہوں نے خود کو والد کے دور حکمرانی سے الگ کرتے ہوئے کہا کہ ’لوگ مجھے ماضی کی طرف جانے والے شخص کے طور پر نہیں بلکہ آگے بڑھنے والے شخص کے طور پر دیکھتے ہیں۔‘
خیال رہے پچھلے برس ستمبر میں پولیس کی حراست میں مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف احتجاج شروع ہوا تھا جن کو درست طور پر حجاب نہ اوڑھنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے بعد شروع ہونے والا احتجاج کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔

شیئر: