اسی تناظر میں چین کی دفاعی صلاحیتوں کے نمایاں خدوخال کا اے ایف پی نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی فوج
لندن میں موجود انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹرٹیجک سٹیڈیز(آئی آئی ایس ایس) کے مطابق اس وقت چین کی پیپلز لبریشن آرمی( پی ایل اے) میں 20 لاکھ کے لگ بھگ تربیت یافتہ مرد و خواتین ڈیوٹی پر ہیں۔
ان میں زمینی فوج کے سپاہیوں کی تعداد نو لاکھ 65 ہزار، نیوی میں دو لاکھ 60 ہزار جبکہ ایئر فورس میں تین لاکھ 95 ہزار اہلکار ہیں۔
علاوہ ازیں ایک لاکھ 20 ہزار اہلکاروں پر مشتمل سٹریٹیجک میزائل فورس اور پانچ لاکھ افراد پر مشتمل پیراملٹری فورس ہے۔
سنہ 2019 میں چین نے اپنی فوج کے حجم میں کمی کرتے ہوئے برّی فوج کے تین لاکھ افراد کو کم کر دیا تھا لیکن دوسری جانب اپنے دفاعی نظام کو جدید بنانے کے لیے وہ وہ اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے۔
چین کی کوشش ہے کہ وہ 2035 تک اپنے نئے منصوبوں کو مکمل کر لے۔
نیوی اور ایئر فورس
چین کے پاس بحری جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی نیوی ہے لیکن اس کے بیڑے میں کئی چھوٹے وارشپس ہیں۔
چین کی بحری فوج کے پاس صرف تین ایئر کرافٹ کیریئرز ہیں لیکن ان میں سے صرف دو ہی آپریشنل ہیں۔
دوسری جانب امریکہ کے پاس 11 ایئر کرافٹ کیریئرز ہیں۔
نومبر میں پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ چینی ایئر فورس بہت تیزی سے مغربی ممالک کی فضائی صلاحیتیوں کے برابر ہونے والی ہے۔
بیرون ملک فوجی اڈے
چین کا ملک سے باہر جبوتی میں صرف ایک فوجی اڈا ہے جو چین کے بقول تجارتی جہازوں کو ہارن آف افریقہ کے قریب سرگرم قزاقوں سے بچانے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
چین کمبوڈیا کے ریم نیول بیس کو بھی جدید بنا رہا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہاں چینی یونٹ تعینات کیا جائے گا یا نہیں۔
ریم خلیج تھائی لینڈ میں واقع ہے جو جنوبی بحیرہ چین تک رسائی فراہم کرتا ہے۔ جنوبی بحیرہ عالمی جہاز رانی کا ایک اہم راستہ ہے۔
شی جن پنگ کی فوج
صدر شی جن پنگ نے 2018 میں اپنے اقتدار کی مدت میں توسیع کے بعد سے فوج پر اپنی گرفت مضبوط کر لی ہے۔
واضح رہے کہ سنہ 2021 میں چین کے قومی دفاعی قانون میں ترمیم کی گئی تاکہ شی جن پنگ کی قیادت میں سینٹرل ملٹری کمیشن (سی ایم سی) کو دفاعی نقل و حرکت کی مکمل ذمہ داری دی جائے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کی کابینہ اور ریاستی کونسل کا فوج کی تعیناتیوں سے متعلق فیصلوں میں کوئی اختیار نہیں ہے۔
جوہری اور ہائپرسونک میزائل
چین کے پاس میزائلوں کا ایک بڑا ذخیرہ بھی ہے۔ اس کے ساتھ اس کے پاس سٹیلتھ ہوائی جہاز اور جوہری ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت رکھنے والے بمباروں کے ساتھ ساتھ جوہری طاقت سے چلنے والی آبدوزیں بھی ہیں۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی پی آر آئی) کے اعداد و شمار کے مطابق چین کے پاس تقریباً 350 جوہری ہتھیار ہیں جو کہ امریکہ کے پاس موجود پانچ ہزار 428 یا روس کے پاس موجود پانچ ہزار 977 ایٹمی وار ہیڈز سے بہت کم ہیں۔
پینٹاگون نے گزشتہ برس کہا تھا کہ چین کے جوہری ذخیرے میں 2035 تک تقریباً 1500 وار ہیڈز کا اضافہ متوقع ہے۔
ماضی قریب میں چین نے جوہری صلاحیت کے حامل ہائپرسونک میزائل کا تجربہ کیا جس نے اگست 2021 میں دنیا کا چکر لگایا اور امریکی انٹیلی جنس کو حیرت میں مبتلا کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ چین ایٹمی ہتھیاروں کے ’استعمال میں پہل نہ کرنے‘ کی سخت پالیسی رکھتا ہے۔