یوکرین کی فوج کے اعلٰی حکام کا کہنا ہے کہ شہر باخموت اور اردگرد کے محاصرے میں آنے والے علاقوں پر دشمن کی جانب سے مسلسل حملے کیے جا رہے ہیں۔
پیر کو رات گئے اعلٰی فوجی حکام سے ملاقات کے بعد صدر زیلنکسی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہم پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنا دفاع مضبوط بنائیں گے۔‘
’میں نے اپنے کمانڈر انچیف سے کہا ہے کہ باخموت میں اپنے فوجیوں کی مدد کے لیے فورسز بھجوائی جائیں۔‘
شدید لڑائی کے بعد دونوں ممالک کی فوجوں کے پاس گولہ بارود کی کمی کی اطلاعات سامنے آئی ہیں کیونکہ کئی روز سے اس کا مسلسل استعمال کیا جا رہا ہے۔
کیئف کے یورپی اتحادیوں نے اسے مزید گولہ بارود کے فراہمی کے لیے ایک نئے معاہدے پر کام شروع کر دیا ہے۔
روسی ملیشیا واگنر کے سربراہ نے پیر کو کہا تھا کہ اس کی فوج نے باخموت پر گرفت مضبوط کر لی ہے تاہم اسلحہ مہیا نہ کیا گیا تو اسے پسپائی اختیار کرنا پڑے گی انہوں نے روسی حکام پر زور دیا کہ انہیں امداد پہنچائی جائے۔
اس کے سربراہ یوگینے پریگوزن نے روسی حکام کے نام ایک ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ’اگر رینگر کو باخموت سے پسپائی اختیار کرنا پڑی تو پورا فرنٹ گر جائے گا جس سے روسی مفادات کو نقصان پہنچے گا۔‘
دوسری جانب کیئف نے امریکہ سے کلسٹر بموں کی فراہمی کی درخواست کی ہے۔
نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یوکرین اور وائٹ ہتھیاروں کی فراہمی کے حوالے بات چیت کر رہے ہیں تاہم وہ اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتا سکتیں۔
ایک سال سے زائد عرصے سے جاری جنگ میں یوکرین نے زیادہ تر دفاعی کارروائیوں پر توجہ مرکوز رکھی ہے۔
پیر کو امریکی ڈیفنس سیکریٹری لائیڈ آسٹن نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ اس بات کی پیشن گوئی نہیں کر سکتے کہ یوکرینی فوجی کب باخموت کو چھوڑیں گے لیکن ایک بات واضح ہے کہ اس کا مطلب روس کی کامیابی نہیں ہو گا۔
خیال رہے پچھلے سال 24 فروری کو روس نے پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے لڑائی جاری ہے۔ امریکہ سمیت دوسرے مغربی ممالک یوکرین کی حمایت کر رہے ہیں اور جنگی سامان بھی دے رہے ہیں اور روس پر پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
روسی صدر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرینی فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالے جانے تک جنگ جاری رہے گی جبکہ دوسری جانب یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ کسی صورت ہار نہیں مانی جائے گی۔