Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قرارداد پاکستان: سیاسی مفاہمت کی مثال

آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کے تاریخی دن تک پہنچنے کے لیے مفاہمت کا راستہ اپنایا (فائل فوٹو)
قیام پاکستان کی بنیاد بننے والی قرارداد 83 برس قبل لاہور میں منظور ہوئی۔
اس دور کا لاہور بھی آج کی طرح سیاسی تناؤ، شخصی ٹکراؤ اور مخالف سیاسی جماعتوں کے اتحاد اور اختلافات سے بھرپور تھا۔
آل انڈیا مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کے تاریخی دن تک پہنچنے کے لیے سیاسی سمجھوتوں اور مخالف سیاسی قوتوں سے مفاہمت کا راستہ اپنایا۔

آج پاکستان کے منظرنامے پر سیاسی، قانونی اور جماعتی  ٹکراؤ عروج پر ہے۔
روز بروز گہرے ہوتے بحران سے نکلنے کا بظاہر کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔
قرارداد پاکستان کی منظوری کا سہرا آل انڈیا مسلم لیگ کے سر ہے، مگر اس مقام تک پہنچنے کے لیے اس نے دیگر سیاسی جماعتوں، شخصیات اور علاقائی قوتوں کے ساتھ اشتراک کا راستہ اپنایا۔
قیام پاکستان تک سات سال کی جدوجہد میں کہیں سیاسی حلیف حریف بن گئے، اور کہیں مخالفت میں آخری حد تک جانے والے سیاسی معاون اور ہمنوا ہوگئے۔
پاکستان میں آج سیاست اور حکومت کی بساط پنجاب میں بچھی ہوئی ہے۔لاہور میں رونما ہونے والے واقعات قومی سیاست کی صورت گری کرتے ہیں۔
قرارداد لاہور کی منظوری سے چار دن قبل پولیس اور خاکسار تحریک کے رضاکاروں میں خونی تصادم نے شہر میں خوف اور تشویش کا ماحول بنا دیا تھا۔
محمد علی جناح نے اس موقع پر اپنی بصیرت سے شہر میں تصادم کے مزید امکانی واقعات کا خوب صورتی سے تدارک کیا۔
اجلاس میں شرکت کے لیے وہ لاہور آئے تو ریلوے سٹیشن سے سیدھا میو ہسپتال چلے گئے۔
خاکسار تحریک مسلم لیگ کی مخالف اور قائداعظم کی نقاد جماعت تھی۔ انہوں نے مخالف جماعت کے زخمی کارکنوں کی عیادت کے ذریعے سیاسی رواداری اور انسانی ہمدردی کا ایسا انداز اپنایا کہ شہر میں تناؤ اور تلخی کم ہوگئی۔
پنجاب کے وزیراعظم کس کے ساتھ تھے؟
اس وقت پنجاب میں جاگیرداروں کی نمائندہ یونینسٹ پارٹی کی حکومت تھی۔ قائداعظم اور پنجاب کے وزیراعظم سر سکندر حیات کے درمیان معاہدے میں طے پایا کہ یونینسٹ پارٹی کے ارکان مسلم لیگ کے ممبر بھی ہوں گے۔
نامور محقق عاشق بٹالوی کی کتاب ’ہماری قومی جدوجہد‘ کے مطابق قرارداد لاہور کا مسودہ تیار کرنے والے یہی سکندر حیات تھے۔
معروف محقق ڈاکٹر عائشہ جلال کے مطابق ’سکندر حیات ایک الگ آئینی سکیم کے حامی تھے جس کے مطابق ہندوستان کو سات مختلف زونز میں تقسیم کیا جانا تھا۔‘

محمد علی جناح نے اپنی بصیرت سے لاہور میں تصادم کے امکانی واقعات کا خوب صورتی سے تدارک کیا (فائل فوٹو)

قرارداد پاکستان کی منظوری کے کچھ عرصے بعد سکندر حیات نے پنجاب اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’انہوں نے جس قرارداد کا مسودہ تیار کیا تھا منظور ہونے والی قرارداد اس سے بہت مختلف تھی۔‘
اصل میں مسلم لیگ کے اندر دلی اور علی گڑھ سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما پاکستان کی مجوزہ سکیم میں پنجاب کے کردار پر تحفظات رکھتے تھے۔
بعد میں سندھ سے تعلق رکھنے والے کچھ رہنما بھی ان کے ہم خیال ہو گئے۔ یہ اختلافات قرارداد پاکستان کے عملی خدوخال کی تشریح کے بارے میں تھے۔
سکندر حیات کے قریبی ساتھی نواب شاہ نواز ممدوٹ نے ’واٹ از پاکستان؟‘ نامی دستاویز میں پنجاب کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی کرتے ہوئے علی گڑھ کو بھی پنجاب کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی۔
مسلم لیگ کی جولائی 1940 میں عبداللہ ہارون کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے ممدوٹ کی تجاویز کو رد کردیا۔
ان واقعات نے سکندر حیات اور محمد علی جناح کے درمیان دوریاں پیدا کر دیں۔
قرارداد کی منظوری کے ایک سال بعد قائداعظم جب لاہور آئے تو سکندر حیات سے نہ تو ان کی ملاقات ہوئی اور نہ ہی پنجاب کے وزیراعظم نے مسلم لیگ کے کسی پروگرام میں شرکت کی۔
عدم اعتماد کی خلیج اتنی بڑھی کہ اگلے برس سکندر حیات نے مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا، حالانکہ انہوں نے جنگ عظیم دوم کے آغاز پر وائسرائے کی ڈیفنس کونسل سے قائداعظم کے حکم پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

قرارداد پاکستان کے بعد قائداعظم اور فضل الحق میں شخصیات کا تصادم اور پالیسیوں پر آرا کا اختلاف بڑھنے لگا (فائل فوٹو: فِلکر)

پاکستان کی مجوزہ سکیم اور اس کے خدوخال پر اختلافات یہاں تک چلے گئے کے انہوں نے مسلم لیگ چھوڑ دی۔بدقسمتی سے اس کے تھوڑے عرصے بعد وہ اس دنیا سے بھی رخصت ہوگئے۔
فضل حق نے قرارداد کیوں پیش کی؟
قرارداد لاہور پیش کرنے والے اے کے فضل الحق بنگال کے مقبول عوامی رہنما اور وزیراعلٰی تھے۔
مسلم لیگ نے سر سکندر حیات کے علاوہ بنگال کے وزیراعلٰی کو قرارداد کی تیاری سے منظوری کے مراحل میں آگے آگے رکھا، جس کا مقصد مسلمانوں کو باور کروانا تھا کہ ان کے منتخب نمائندے مسلم لیگ کی حکمت عملی کے حامی ہیں۔
اے کے فضل الحق کا مسلم لیگ سے تعلق اور سیاسی رشتہ نشیب و فراز سے عبارت تھا۔
سنہ 1937 کے انتخابات میں انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت کے لیے بنگال سے بغیر معاوضہ زمینداری کے خاتمے کو انتخابی منشور کا حصہ بنانے کی شرط عائد کی۔
چونکہ بنگال کی مسلم اشرفیہ مسلم لیگ کی حامی تھی جس کی وجہ سے اسے ماننا سیاسی طور پر نقصان دہ تھا۔
فضل الحق نے کرشک پروجا کے نام سے الگ پارٹی قائم کرلی۔
انتخابات میں ان کی جماعت نے 38 جبکہ مسلم لیگ نے 40 نشستیں جیتیں، مگر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آزاد امیدواروں کے تعاون سے فضل الحق کی حکومت بنانے میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی۔

آل انڈیا مسلم لیگ نے 1937 کے انتخابات میں 40 نشستیں حاصل کیں (فائل فوٹو)

چونکہ بنگال کی مسلم اشرفیہ مسلم لیگ کی حامی تھی جس کی وجہ سے اسے ماننا سیاسی طور پر نقصان دہ تھا۔
فضل الحق نے کرشک پروجا کے نام سے الگ پارٹی قائم کرلی۔
انتخابات میں ان کی جماعت نے 38 جبکہ مسلم لیگ نے 40 نشستیں جیتیں، مگر سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے آزاد امیدواروں کے تعاون سے فضل الحق کی حکومت بنانے میں رکاوٹ نہ ڈالی گئی۔قرارداد پاکستان کے بعد قائداعظم اور فضل الحق میں شخصیات کا تصادم اور پالیسیوں پر آرا کا اختلاف بڑھنے لگا۔
متحدہ بنگال کے وزیراعلٰی کی حیثیت سے فضل حق اپنے آپ کو مقبول عام رہنما تصور کرتے تھے۔حکومتی معاملات میں مسلم لیگ کے مشورے اور مداخلت کے قائل نہ تھا۔
ایک وقت ایسا آیا کہ مسلم لیگ نے جس رہنما کو قرارداد پاکستان پیش کرنے کا اعزاز عطا کیا تھا اسمبلی میں اسی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لے آئی۔
اس تحریک کی کامیابی کے نتیجے میں فضل الحق اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیراعلٰی بنے۔
قرارداد پاکستان میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ ’ریاستوں‘ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔ 1946 میں مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے دلی کنونشن میں اسے لفظ ریاست سے بدل دیا تھا۔
اس کے باوجود فضل الحق اور بنگال کے قوم پرست سیاست دان پاکستان بننے کے بعد بھی بنگال کی آزاد حیثیت کے جواز کے طور پر قرارداد میں دو ریاستوں کے لفظ کو استعمال کرتے رہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر فضل الحق اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے اور خواجہ ناظم الدین بنگال کے وزیراعلٰی بنے (فائل فوٹو)

نیرنگی سیاست دوراں   
سنہ 1937 کے انتخابات میں کانگریس نے ہندوستان کے آٹھ صوبوں میں حکومت بنائی۔
دوسری جنگ عظیم کے آغاز پر کانگریس نے احتجاجاً وزارتوں سے علیحدگی اختیار کر لی۔
مسلم لیگ نے اس موقع کو اپنے مقاصد کے حصول کا راستہ سمجھا۔
جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو پنجاب، بنگال اور آسام کے وزرائے اعلٰی مسلم لیگ کے ہم خیال تھے۔
مگر بعد کے ادوار میں سیاسی مفادات اور بدلتے حالات نے سکندر حیات اور فضل الحق کو مسلم لیگ سے دور کر دیا۔
سکندر حیات کی رحلت کے بعد ان کے فرزند شوکت حیات مسلم لیگ میں شامل ہوگئے۔تقسیم کے بعد وہ مہاجرین کے امور کے وزیر بنے۔1970 میں قومی اسمبلی کے رکن اور 1973 کی آئین سازی میں پیش پیش تھے۔
فضل الحق کا سیاسی سفر عجیب سیاسی حادثات سے عبارت رہا۔ وہ 1954 میں مشرقی پاکستان کے وزیراعلٰی بنے اور غداری کے الزام میں عہدے سے برطرف کردیے گئے۔
بعدازاں پاکستان کے مرکزی وزیر داخلہ اور مشرقی پاکستان کے گورنر بنائے گئے۔
صوبہ سرحد میں اس وقت کانگریس اور باچا خان کی خدائی خدمت گار تحریک کی حکومت تھی۔ ان کے بھائی ڈاکٹر خان صاحب صوبے کے وزیراعلٰی تھے۔صوبائی حکومت مسلم لیگ کے تصورِ پاکستان کی مخالف تھی۔

پولیس اور خاکسار تحریک کے رضاکاروں میں خونی تصادم نے شہر میں خوف اور تشویش کا ماحول بنا دیا تھا (فائل فوٹو)

قیام پاکستان کے بعد ڈاکٹر خان صاحب کی حکومت ختم کر دی گئی۔ حیرت انگیز طور پر ان کی جگہ کانگریس سے مسلم لیگ میں نئے شامل ہونے والے خان عبدالقیوم خان کو صوبے کا وزیراعلٰی بنایا گیا۔
ڈاکٹر خان صاحب بعد میں مغربی پاکستان کے وزیراعلٰی رہے۔ اس دور میں اقتدار کے لیے راتوں رات بننے والی نئی سیاسی جماعت ریپبلکن پارٹی کی سربراہی بھی ڈاکٹر خان صاحب کے پاس تھی۔

خان عبدالقیوم خان آنے والے دور میں مسلم لیگ کے ایک دھڑے کے سربراہ کے طور پر سیاست میں سرگرم تھے۔ اسی حیثیت میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں وزیر داخلہ کی حیثیت سے کام کیا۔
سندھ مسلم لیگ نے قرارداد پاکستان کی منظوری سے دو سال قبل 1938 میں ایک قرارداد کے ذریعے انڈیا کو مسلم اور غیر مسلم ریاستوں میں تقسیم کرنے کی قرارداد منظور کی۔
سندھ مسلم لیگ کے صدر رہنے والے جی ایم سید نے مسلم لیگ سے سیاسی راہیں جدا کرلیں۔ قیام پاکستان کے بعد انہوں نے قومی کے بجائے صوبائی سیاست کے میدان کا انتخاب کیا۔
وہ بھی قرارداد لاہور کو ایک سے زیادہ ریاستوں کے بننے کا محرک سمجھتے تھے۔
نامور تاریخ دان عائشہ جلال کے الفاظ میں قائداعظم نے ایسے حالات میں جب مسلم لیگ کی حکومتی نمائندگی بہت محدود تھی، پنجاب اور بنگال کے وزرائے اعلٰی کو ساتھ ملا کر مطالبہ پاکستان کی داغ بیل ڈالی۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی بحران میں مفاہمت اور بات چیت کے راستے مسدود ہوتے جا رہے ہیں۔ سیاسی رہنما دن رات بانی پاکستان کے نقشے قدم پر چلنے کا درس دہراتے ہیں۔
قرارداد پاکستان کی صورت میں سیاسی مفاہمت اور مخالف سوچ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ 

شیئر: