’اگر دونوں رہنماؤں (بھٹو اور اندرا گاندھی) کو ایک کمرے میں بند کرکے تالا لگا دیا جائے، چابیاں پھینک دی جائیں، انہیں اس وقت تک باہر نہ نکالا جائے جب چمنیوں سے دھواں نکلتا دکھائی نہ دے۔ جیسا کہ یہ نئے پوپ کے انتخاب کے لیے ایک روایت اور طریقہ کار بن چکا ہے۔‘
یہ تجویز اور الفاظ ایک بھارتی سیاسی کارکن اور مصنف کے تھے جن کا اظہار انہوں نے آج سے ٹھیک پچاس برس قبل پاک بھارت مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے کیا تھا۔
بھارت کے صحت افزا مقام شملہ میں 28 جون 1972 سے جاری مذاکرات پر جب بے نتیجہ ہونے کے خطرات منڈلا رہے تھے۔
ایسے میں بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی سے اچھے تعلقات رکھنے والے اور پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی دوست اور کلاس فیلو پیلو مودی نے یہ تجویز پیش کر دی تھی، مگر اسی روز دوپہر کو تعطل اور سرد مہری کا شکار مذاکرات میں امید اور نتیجہ خیزی کی ہلکی سی کرن پیدا ہوئی۔
بظاہر غیرعلانیہ ناکام مذاکرات کے آخری روز پاکستانی اور بھارتی سربراہان مملکت نے پیلو مودی کے مشورے پر کمرے میں بند ہو کر بات چیت کرنے کے برعکس چہل قدمی اور گفتگو کرنے کے لیے عمارت سے باہر جانے کا فیصلہ کیا۔
مزید پڑھیں
-
جب بھٹو کرکٹ کے دیوانے تھےNode ID: 483296
-
ذوالفقار علی بھٹو پر قتل کا مقدمہ یا ’مقدمے کا قتل‘Node ID: 554291
-
آپریشن ’بلیو سٹار‘ جو اندرا گاندھی کی موت کی وجہ بناNode ID: 614031