Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

1973 کا آئین :جمہوریت اور آمریت کے درمیان سفر کے پچاس سال

یہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی کے موقع پر پاکستانی سیاست اور عدالت میں ساری گرما گرمی اس آئین کی تعبیر اور تشریح کے گِرد گھوم رہی ہے۔
10  اپریل 1973 کو موجودہ آئین کی منظوری کا تاریخی مرحلہ طے ہوا۔ آئینی مسودے کی تیاری، تدوین اور اتفاق رائے تک پہنچنے میں ایک برس کا عرصہ لگا۔
شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہوگا کہ اپریل 1972 سے اگست 1973 تک نظام حکومت عبوری دستور کے تحت چلایا جاتا رہا۔ اس عبوری آئین کے نفاذ سے قبل ذوالفقارعلی بھٹو یحییٰ خان کے ایل ایف او کے تحت سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔
بھٹو حکومت کے مدمقابل اپوزیشن جماعتوں نے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے نام سے اتحاد تشکیل دے رکھا تھا۔
خان عبدالولی خان، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، چوہدری ظہور الٰہی اور شوکت حیات اسمبلی کے اندر حکومتی پالیسیوں اور فیصلوں کو ہدف تنقید بناتے رہے۔ اسی اسمبلی سے باہر پیر پگاڑہ اور ایئر مارشل اصغر خان حکومت کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔
آج کی ہنگامہ خیز سیاست کا اگر اس دور سے تقابل کیا جائے تو دونوں ادوار میں بہت ساری مماثلتیں نظر آئیں گی۔ سیاسی تقسیم اور تناؤ، شخصیات کا ٹکراؤ اور جماعتی تصادم کا ماحول دونوں میں یکساں ہے۔
آج کے پاکستان میں دو صوبوں میں منتخب حکومتوں کے بغیر نظام چل رہا ہے۔ ان میں مستقبل کی حکومت کے بارے میں پاکستان تحریک انصاف اور وفاقی حکومت میں سیاسی کشیدگی اور عدالتی کشمکش عروج پر ہے۔
1973 میں وفاقی حکومت کی جانب سے بلوچستان میں اپوزیشن کی منتخب حکومت کے خاتمے کے بعد سرحد میں اپوزیشن جماعتوں کی اتحادی حکومت نے احتجاجاً استعفی دے دیا تھا۔
حالیہ عرصے میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر قاتلانہ حملے نے سیاسی انتشار کو مزید  بڑھاوا دیا۔ اسی طرح کا آتشیں ماحول 1972 کو راولپنڈی لیاقت باغ میں اپوزیشن کے جلسے میں خونریز تصادم اور انسانی ہلاکتوں کے بعد بن گیا تھا۔
اپوزیشن اور حکومت کے درمیان براہ راست تصادم کے ماحول میں ایک برس کی طویل اور صبر آزما کشمکش کے بعد متفقہ آئین کا منظور ہونا کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ ساری سیاسی قیادت آئینی سمجھوتے پر راضی ہو گئی تھی۔ اس کے برعکس موجودہ حکومت کو معرض وجود میں آئے آج ایک برس ہو چلا ہے۔ سیاسی قوتوں میں تاحال کسی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آ رہے۔

اپوزیشن کا بھٹو سے مطالبہ تھا کہ وہ اسمبلی سے باہر یو ڈی ایف کی قیادت سے بھی مذاکرات کریں (فوٹو: اے ایف پی)

متفقہ کا آئین کا معجزہ کیسے ہوا؟
قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل تھی۔ مگر اس کے سیاسی مخالفین حکومتی ایوانوں سے سیاسی جلسہ گاہوں تک متحد اور متحرک تھے۔ ایسے میں بھٹو نے مستقل آئین کے لیے اپوزیشن کی طرف تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔
اکتوبر 1972 میں 25 رکنی آئین ساز کمیٹی میں اپوزیشن کے رہنماؤں کو شامل کیا۔
بھٹو کو اپنے ہی وزیر قانون اور کمیٹی کے سربراہ محمود علی قصوری کی طرف سے اختلاف رائے اور استعفے کا سامنا کرنا پڑا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے ان کی جگہ سنبھالی۔
آئین کا پہلا مسودہ فروری 1973 میں  تیار ہو گیا مگر کمیٹی میں اپوزیشن کے نمائندوں کی بھرپور مخالفت اور تحفظات کے ساتھ۔ حکومت اپنے مسودے پر بضد رہی جس کی وجہ سے 22 مارچ کو اپوزیشن نے آئین سازی کے عمل کا بائیکاٹ کر دیا۔
سینیئر صحافی حافظ طاہر خلیل آئین کی تیاری کے مراحل کو اخبار کے لیے رپورٹ کرتے رہے۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا بھٹو سے مطالبہ تھا کہ وہ اسمبلی سے باہر یو ڈی ایف کی قیادت سے بھی مذاکرات کریں۔ جبکہ بھٹو اس کے لیے تیار نہ تھے۔ دونوں فریقین اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے اور یوں لگ رہا تھا کہ دستور اپوزیشن کی غیر موجودگی میں پاس ہو گا۔
اپریل کے پہلے ہفتے میں حکومت نے حزب اختلاف کی تجویز کردہ ترامیم پر غور کا عندیہ دیا۔ عبدالحفیظ پیرزادہ اور پروفیسر غفور احمد کے درمیان ملاقاتوں کے متعدد ادوار ہوئے مگر معاملات میں تعطل برقرار رہا۔ اپوزیشن آئینی مسودے میں 42 ترامیم پر برابر اصرار کیے جا رہی تھی۔
10 اپریل کی دوپہر وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ اسمبلی ہال میں داخل ہوئے۔ انہوں نے کراچی سے آزاد منتخب ہونے والے رکن اسمبلی ظفر احمد انصاری کا بازو تھام رکھا تھا جس نے ہال میں بیٹھے ممبران کو تجسس میں ڈال دیا۔
حکومتی بینچوں پر بیٹھتے وقت ایک رکن سے ملتے ہوئے ان کے منہ سے نکلا ’وہ بھی آ رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا بلا وجہ نہ تھا۔

اپوزیشن کی ترامیم میں سے ایک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے بارے میں تھی (فوٹو: اے ایف پی)

عین اسی لمحے ذوالفقار علی بھٹو اور اپوزیشن رہنماؤں کے درمیان مذاکرات کا ایک اور دور چل رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بھٹو اسمبلی ہال میں داخل ہوئے تو ممبران اسمبلی کی نگاہیں اپوزیشن ممبران کو تلاش کر رہی تھیں۔
اسمبلی کی کارروائی کو تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ اپوزیشن لیڈر ولی خان  پنے دیگر ساتھیوں سمیت اسمبلی ہال میں داخل ہوئے جس سے ایوان کا ماحول تبدیل ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد اپوزیشن کی تجویز کردہ سات اہم ترین ترامیم پاس ہو چکی تھیں۔
آج کل عدالت میں سیاسی تنازعات پر فیصلوں کے بعد سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ خبروں میں رہتا ہے۔
آئین کی منظوری سے تھوڑی دیر پہلے اپوزیشن کی ترامیم میں سے ایک ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ہٹانے کے بارے میں تھی۔
حکومت کی جانب سے آئین کے مسودے میں قومی اسمبلی کو ججز کے ہٹانے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کی طرف اس بارے میں ترمیم کی منظوری کے بعد یہ اختیار سپریم جوڈیشل کونسل کو دینے پر اتفاق ہوا۔
حکومت نے آئینی مسودے میں ووٹر کی عمر 21 سال رکھی تھی۔ اپوزیشن کے ساتھ معاہدے میں آخری لمحات میں اسے 18 سال کر دیا گیا۔
آئین سازی کے لیے قائم کمیٹی کے تین اراکین اس وقت حیات ہیں جن میں ڈاکٹر غلام حسین، مصطفی کھر  اور قائم علی شاہ شامل ہیں۔
غلام حسین نے اردو نیوز کو بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ وہ اپوزیشن کی پرواہ نہ کریں اور اپنی اکثریت کے بل بوتے پر آئین منظور کروا لیں مگر بھٹو کے خیال میں متفقہ آئین ہی پاکستان کے سیاسی اور انتظامی مسائل کا حل تھا۔
آئین کی منظوری کے تیسرے دن اخبارات میں اپوزیشن اتحاد کے نائب صدر مفتی محمود کا ایک بیان شائع ہوا کہ ظفر احمد انصاری کو اتحاد سے نکال دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں کو اعتماد میں لیے بغیر حکومت سے مذاکرات کیے۔
اگلے دن وفاقی وزیرقانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے انکشاف کیا کہ وہ اور ظفر انصاری اسمبلی سیشن کے وقفے کے دوران خصوصی طیارے میں مولانا مودودی کو ملنے لاہور گئے تھے۔
اس ملاقات میں انہوں نے مولانا کو تعطل دور کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کو کہا۔ بقول عبدالحفیظ پیرزادہ تب مولانا مودودی نے پروفیسر غفور احمد کو متفقہ آئین کے لیے مذاکرات کی بحالی کی تلقین کی۔
آئینی مسودے پر کس نے دستخط نہیں کیے؟
آئین پاکستان کی منظوری کے حق میں 146 میں سے 137 اراکین نے ووٹ دیا۔ 10 اپریل کو ہی اسمبلی میں اراکین کی اکثریت نے آئینی مسودے  پر دستخط کیے۔
ذوالفقار علی بھٹو سمیت بہت سارے اراکین اس روز دستخط نہ کر سکے۔ یہ طے ہوا کہ 12اپریل کو پریزیڈنسی میں صدر آئین کی منظوری دیں گے۔
اس روز اسلام آباد میں واقع اسمبلی بلڈنگ سے راولپنڈی صدر ہاؤس تک جشن آئین کے جلوس کا انتظام کیا گیا۔ ممبران اسمبلی جلوس کی شکل میں پریزیڈنسی کی طرف جا رہے تھے اور ہزاروں لوگ سڑک کے کنارے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کرتے رہے۔
اپوزیشن اور حکومتی  ممبران کی موجودگی میں بھٹو نے آئین کی منظوری دی۔ اس کے نافذالعمل ہونے کی تاریخ 14 اگست رکھی گئی۔ جو ممبران پہلے دستخط نہیں کر سکے تھے انہوں نے بھی اس مسودے  پر دستخط ثبت کیے۔
کچھ ممبران اسمبلی ایسے تھے جنہوں نے اس روز بھی آئین پر دستخط نہیں کیے۔ میر علی احمد تالپور، میاں محمود علی قصوری، عبدالحمید جتوئی، غلام نور محمد، نواب خیر بخش مری، عبدالحئی بلوچ اور احمد رضا قصوری نے مختلف وجوہات کی بنا پر دستخط نہیں کیے۔

شاہ احمد نورانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اختلافی نوٹ بھی لکھا۔ حقیقت میں آئین ساز کمیٹی کے ممبر کے طور پر آئینی مسودے کی رپورٹ پر انہوں نے اختلافی نوٹ لکھا تھا نہ کہ منظور شدہ آئین کے مسودے پر۔
میاں ممتاز دولتانہ لندن سے بطور خاص آئین کی منظوری میں حصہ لینے اسلام آباد آئے تھے۔
سینیئر صحافی اور دانشور حسین نقی آئین کی منظوری کے عینی شاہدوں میں شامل تھے۔ انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ بنگلہ دیش کی علیٰحدگی کے بعد منظور ہونے والے آئین پاکستان نے قوم کو یکجا کیا۔ ملک میں جمہوری راستے کی سمت متعین کی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئین کی منظوری کے بعد بنیادی حقوق کی معطلی افسوس ناک امر تھا جس نے ملک میں جمہوری آزادیوں کے تصور کو نقصان پہنچایا۔
آئین میں ضیاء الحق کا نام
پاکستان کے آئین کے 50 برسوں میں 20 سال آمریت کے سائے تلے گزرے۔ جنہوں نے اپنی مرضی کی ترامیم سے اس کی پارلیمانی اور جمہوری روح کو بدل کر رکھ دیا۔
1973 کے دستور میں اب تک 26 ترامیم ہو چکی ہیں۔ سب سے زیادہ ترامیم اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہوئیں۔
آئین کی منظوری کے وقت بنگلہ دیش کو پاکستان کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ پہلی آئینی ترمیم کے ذریعے بنگلہ دیش کو تسلیم کیا گیا۔
بھٹو نے اپنے دور کی ساتویں آئینی ترمیم اپنی حکومت کے خاتمے سے دو ماہ پہلے کیں۔ اس کے مطابق وزیر اعظم اپنے فیصلوں کی عوامی تائید یا ناپسندیدگی جاننے کے لیے ریفرنڈم کروا سکتا ہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کو ریفرنڈم کروانے کی مہلت نہ مل سکی۔ البتہ انہیں اقتدار اور حیات سے محروم کرنے والے ضیاء الحق نے نہ صرف ریفرنڈم کروایا بلکہ اسے آئین میں درج بھی کروا دیا۔

ضیاء الحق نے شریف الدین پیرزادہ کا بنایا مسودہ اسمبلی سے پاس کروانا چاہا (فوٹو: اے ایف پی)

شاید بہت سارے لوگوں کے لیے یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کا نام آئین میں 25 برس تک موجود رہا جس میں ان کی موت کے بعد کے 22 سال بھی شامل ہیں۔
آئین میں آٹھویں ترمیم کے ذریعے ضیاء الحق کے غیر قانونی اقدامات کو تحفظ دیا گیا جن میں دسمبر 1984 کا ریفرنڈم بی شامل تھا۔
آٹھویں ترمیم کے تحت شق نمبر 41 میں ضیاء الحق کے ریفرنڈم کے نتیجے میں پانچ سال کے لیے صدر کی حیثیت سے چناؤ کا تذکرہ آئین میں درج کیا گیا۔
اس متنازعہ شق کو آئین میں داخل کرنے والے اس وقت کے وزیر قانون اقبال احمد خان کے حالات زندگی پر مبنی کتاب ’اس نے جو کہا‘ میں اس کا ذکر موجود ہے۔
ان کے مطابق ضیاء الحق نے شریف الدین پیرزادہ کا بنایا مسودہ اسمبلی سے پاس کروانا چاہا۔ وزیراعظم محمد خان جونیجو نے اس بات پر اصرار کیا کہ وزیر قانون کو یہ کام کرنا چاہیے۔
اقبال احمد خان کے مطابق ضیاء الحق نے ان سے ملاقات میں اصرار کیا کہ ریفرنڈم میں ان کی صدارت کی شق لازمی شامل کی جائے۔
آئینی ترامیم پر حکومت اور عدلیہ آمنے سامنے
آٹھویں ترمیم میں 58 ٹو بی کی شق نے آنے والے دور میں تین منتخب حکومتوں کو گھر بھیج دیا۔ میاں محمد نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس غیر جمہوری شق کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
یکم اپریل 1997 کو تیرہویں ترمیم کا بل ایوان میں پیش ہوا۔ اس وقت کے وزیر قانون خالد انور ایڈووکیٹ نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ دو ہفتوں تک خاموشی سے اس بل پر کام کرتے رہے اور کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔
اس دور کی اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو کو جب ایک رات قبل نواز شریف کی تقریر سے آئینی ترمیم کا علم ہوا تو صبح پہلی فلائٹ سے اسلام آباد پہنچ گئیں۔ ان کی جماعت نے اسمبلی اور سینیٹ میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دیا۔

25 برس قبل نواز شریف حکومت نے چودھویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے کو آئین کا حصہ بنایا (فوٹو: اے ایف پی)

صدر کا اسمبلی توڑنے کا اختیار ختم کرنے کی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا۔
گزشتہ برس پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد پنجاب میں صوبائی حکومت کے معاملات عدالتوں میں پیش ہوئے۔ ان میں آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی بنیاد پر چوہدری پرویز الہی کی حکومت بنی۔
ٹھیک 25 برس قبل نواز شریف حکومت نے چودھویں ترمیم کے ذریعے اس شق کو آئین کا حصہ بنایا۔ جس پر اس دور کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ان کا تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
اس آئینی ترمیم کے ذریعے ممبر پارلیمنٹ کی سیاسی وفاداری تبدیل کرنے کے راستے کو بند کر دیا گیا۔ اپوزیشن کی مدد سے دونوں ایوانوں سے پاس ہونے والی اس ترمیم کو چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے معطل کر دیا۔
وزیراعظم نواز شریف نے ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلے پر تنقید کی تو انہیں سپریم کورٹ نے توہین عدالت کے کیس میں طلب کر لیا۔ جسٹس سجاد علی شاہ کی سربراہی میں ایک اور بینچ نے دسمبر 1997 میں تیرہویں ترمیم بھی معطل کر دی۔
جس کے بعد عدلیہ کے اندر ججوں کی آپس میں کشمکش اور ایک دوسرے کے خلاف فیصلوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بعد میں سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس رخصتی کے بعد سپریم کورٹ نے تیرویں اور چودھویں ترامیم بحال کر دی۔
آئین میں کیسی تبدیلی کی ضرورت ہے؟
آئین پاکستان کے پچاس برس کے سفر میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ مارشل لاء کے ادوار میں اس کی ہیئت اور روح میں متعدد تبدیلیاں ہوئیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے 2010 میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف اور ضیاء الحق کے دور کی بہت ساری متنازع اور غیر جمہوری شقوں کو آئین پاکستان سے خارج کر دیا جس میں ضیاء الحق کا نام بھی شامل تھا۔
کیا آئین میں ابھی بھی تبدیلیوں اور ترامیم کی گنجائش موجود ہے؟ اس سوال کے جواب میں معروف دانشور حسین نقی کا کہنا تھا کہ آئین میں اشرفیہ کی نمائندگی زیادہ جبکہ پسے ہوئے اور محروم طبقات کی نمائندگی بہت کم ہے۔ بالادست طبقات آئین کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق ڈھال لیتے ہیں  جس سے اس کی جمہوری روح بتدریج کمزور ہو چکی ہے۔ حسین نقی کے خیال میں آئین میں محروم طبقات کی الگ سے نمائندگی کا نظام ہونا چاہیے۔

احمد بلال محبوب کے مطابق بلدیاتی نظام کے بارے میں آئینی گارنٹی کو مزید واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے (فوٹو: فیس بک)

پاکستان میں آئینی اور قانونی پیشرفت کا جائزہ لینے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب سمجھتے ہیں کہ بلدیاتی نظام کے بارے میں آئینی گارنٹی کو مزید واضح اور غیر مبہم ہونا چاہیے۔
اسی طرح قانون سازی کے بغیر آذڈینس کے ذریعے نظام حکومت چلانے کی حوصلہ شکنی کے لیے آئین میں واضح نظام وضع کرنا ضروری ہے۔
احمد بلال محبوب اعلیٰ عدالتوں میں ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں پارلیمنٹ کے کردار کو بڑھانے کے لیے دستوری تبدیلیوں کی تجویز بھی دیتے ہیں۔
آئین کا اصل مسودہ کہاں ہے؟
آئین پاکستان کی منظوری کے ساتھ ہی ایک اور قرارداد بھی منظور ہوئی تھی جس میں یہ کہا گیا کہ ممبران اسمبلی کے دستخط کے بعد آئین کا اصل مسودہ قومی عجائب گھر میں محفوظ رکھا جائے گا۔
کچھ لوگوں کے خیال میں آئین پاکستان کا اصل مسودہ کہیں گم ہو چکا ہے۔
قومی اسمبلی کے ایڈیشنل سیکرٹری کی تحویل میں آئین کا مسودہ موجود ہے جس پر ممبران اسمبلی کے دستخط ثبت ہیں۔ ان کے مطابق آئین کا ایک اور اصل مسودہ بھی موجود ہے۔
آئین کی منظوری کے وقت پارلیمنٹ کی موجودہ بلڈنگ کی تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ اس وقت اسمبلی کی ساری کارروائی جس عمارت میں ہوئی تھی وہ اب نادرا کے زیر استعمال ہے۔
ماضی میں اسمبلی کی کارروائی جس عمارت میں ہوتی تھی وہ سٹیٹ بینک بلڈنگ کہلاتی تھی۔ قومی اسمبلی ذرائع کے مطابق حکومت نے اس عمارت کو قومی ورثہ کے طور پر محفوظ کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ جس کے لیے اس عمارت کو آئین کی منظوری کے وقت کے نقشے اور ترتیب کے مطابق بحال کر کے قومی یادگار قرار دیا جائے گا۔ 

شیئر: