لارجر بینچ کے حکم سے آمرانہ جھلک آتی ہے جو آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا: جسٹس فائز
لارجر بینچ کے حکم سے آمرانہ جھلک آتی ہے جو آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا: جسٹس فائز
ہفتہ 8 اپریل 2023 20:09
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کوئی دوسرا بینچ اپیل نہیں سن سکتا ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)
سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حافظ قرآن کو اضافی نمبر دینے کے کیس میں تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’متکبرانہ آمریت کی دھند میں لپٹے کسی کمرہ عدالت سے نکلنے والے فیصلے آئین کو برطرف نہیں کر سکتے۔‘
سنیچر کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا آرٹیکل 184 (3) کے مقدمات کی کاروائیاں روکنے کا چھ صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا جو بعد میں سائٹ سے ہٹا دیا گیا۔
اپنے فیصلے کے خلاف لارجر بینچ کی کارروائی پر اعتراض اٹھاتے ہوئے اپنے تفصیلی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’میرے فیصلے پر چھ رکنی بینچ کی تشکیل کی آئین اور قانون اجازت نہیں دیتا ہے۔ مقدمات کا فیصلہ قانون کے مطابق نہیں ہو گا تو عوام کا اعتماد عدلیہ پر نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کے حوالے سے لکھا کہ وفاقی حکومت رجسٹرار عشرت علی کو تین اپریل کو عہدے سے ہٹا چکی تھی مگر رجسٹرار نے حکومت کا حکم نہ مانتے ہوئے چار اپریل کو چھ رکنی بینچ کا روسٹر جاری کیا۔
’رجسٹرار نے 29 مارچ کے فیصلے پر غیرقانونی سرکلر جاری کیا۔ غیرقانونی سرکلر کا چیف جسٹس کو بھی خط لکھا لیکن کوئی جواب نہ ملا اور سرکلر غیرآئینی ہونے کا ادراک ہونے پر ہی چھ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا۔‘
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ’سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف کوئی دوسرا بینچ اپیل نہیں سن سکتا ہے۔ نام نہاد لارجر بینچ کی تشکیل قانونی تھی نہ وہ آئینی عدالت تھی۔‘
فائز عیسیٰ نے کہا کہ ’چھ رکنی لارجر بینچ کے فیصلے کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔ جلد بازی میں لارجر بینچ نے سماعت کی اور آٹھ صفحات کا فیصلہ بھی جاری کیا۔‘
’معمول کے مطابق سماعت ہوتی تو چار ججز سوچتے کہ ان کے سینیئر کیا کر رہے ہیں۔ عدلیہ کا کام آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرنا ہے. اختیارات سے تجاوز کیا جائے تو ججز کے حلف کی خلاف ورزی ہوگی۔‘
تفصیلی نوٹ میں انہوں نے کہا ’چھ رکنی بینچ غیرآئینی تھا اس لیے 29 مارچ کا فیصلہ کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔‘
’لارجر بینچ کے حکم سے آمرانہ جھلک آتی ہے جو آئین کا متبادل نہیں ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کے لیے استعمال کیا گیا لفظ ماسٹر آف روسٹرز آئین میں کہیں نہیں ملتا ہے۔‘