Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دہشت گردوں کے خلاف آپریشن تیز کرنے کا فیصلہ، کیا بڑی کارروائی کی تیاری ہے؟

پولیس اور سی ٹی ڈی کی جانب سے مختلف اضلاع میں اب بھی سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز جاری ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کے مطابق صوبے کے قبائلی اضلاع میں ابھی تک شدت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ نہیں ہوا اور اس وقت پولیس ٹارگٹڈ کارروائیاں کر رہی ہے۔
اسلام آباد میں 7 اپریل کو قومی سلامتی کمیٹی نے ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن کو تیز کرنے کا فیصلہ کیا جس کے تحت خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع سمیت جنوبی اضلاع کے کچھ علاقوں کو امن و امان کے حوالے سے حساس ترین قرار دیا گیا۔
ضم قبائلی اضلاع میں جنوبی و شمالی وزیرستان، جنوبی اضلاع میں ڈی آئی خان، ٹانک، لکی مروت اور بنوں سکیورٹی کے مخدوش حالات کی وجہ سے سرفہرست ہیں۔
کیا بڑے پیمانے پر آپریشن کیا جائے گا؟ 
خیبرپختونخوا کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار عقیل یوسفزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عید کے بعد آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے مگر وہ آپریشن ٹارگیٹڈ کارروائی ہوگی جو مخصوص جگہوں پر موجود دہشت گردوں کے خلاف ہو گی۔‘
ضم اضلاع اور جنوبی اضلاع کے علاوہ پشاور کے کچھ علاقوں میں آپریشن کی منصوبہ بندی ہے جہاں دہشت گرد عناصر کی موجودگی کی اطلاعات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں آپریشن کے علاوہ کوئی اور صورت نظر نہیں آتی کیونکہ گزشتہ کچھ ماہ سے سکیورٹی فورسز پر حملوں میں شدت آئی ہے۔ 
تجزیہ کار عقیل یوسفزئی کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے متعدد حملوں میں کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا۔
 پولیس اور سی ٹی ڈی کی جانب سے مختلف اضلاع میں اب بھی سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز جاری ہیں، تاہم کلین اپ آپریشن صرف فوج کی جانب سے کیا جائے گا۔
کیا شہریوں کو نقل مکانی کی ہدایت کی گئی ہے؟
جنوبی وزیرستان میں آپریشن کے فیصلے کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئیں کہ مقامی لوگوں کو گھروں کو خالی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے اردو نیوز نے تحصیل لدہ کے اسسٹنٹ کمشنر انیس الرحمان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس کی تردید کی اور کہا کہ ’آپریشن کے حوالے سے ضلعی انتظامیہ کو ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ملی اور نہ کسی کو گھر خالی کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔‘

اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز آپریشن انٹلیجنس کی بنیاد پر کر رہی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز آپریشن انٹلیجنس کی بنیاد پر کر رہی ہے جو کہ ٹارگٹڈ کارروائی ہوتی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق بازار، مارکیٹیں اور دفاتر میں روزمرہ کے معمولات رواں دواں  ہیں۔ 
صوبائی حکومت کا موقف
نگراں وزیراطلاعات بیرسٹر فیروز جمال نے اردو نیوز سے گفتگو میں موقف اپنایا کہ ابھی تک بڑے پیمانے پر آپریشن کا فیصلہ نہیں ہوا۔ کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ٹارگٹڈ کارروائی ہو جو کہ پولیس کی جانب سے کی جا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ صوبہ اپنی استعداد کے مطابق دہشت گردوں سے لڑ رہا ہے اور آخری دم تک لڑے گا۔
 ان کا مزید کہنا تھا کہ آئی ڈی پیز سے متعلق خبریں بے بنیاد ہیں۔
وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کے مطابق ’روز پولیس کی شہادتیں ہو رہی ہیں، روز ہم جنازے اٹھا رہے ہیں، اس لیے تو ہم نے الیکشن کو تاخیر سے کرنے کی سفارش کی ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ حکومت نے جو غلطیاں کی ہیں ہم ان کو بھگت رہے ہیں۔ ایک طرف دہشت گردی کا سامنا ہے اور دوسری جانب مالی بحران سے دوچار ہیں۔‘
سی ٹی ڈی ایک افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ حساس علاقوں میں انفارمیشن کی بنیاد پر کارروائیاں ہو رہی ہیں اور بہت کم عرصے میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔ 
ان کا کہنا تھا کہ سافٹ اور ہارڈ ٹارگٹ رکھے گئے ہیں جن کو منصوبہ بندی کے تحت کر رہے ہیں۔

پولیس حکام کے مطابق رواں سال تین ماہ میں پولیس پر 30 حملے کیے گئے (فوٹو: اے ایف پی)

سی ٹی ڈی حکام کے مطابق گزشتہ ایک ہفتے کے دوران مختلف کارروائیوں میں 14 دہشت گرد گرفتار کیے گئے جبکہ ایک ماہ کے اندر 10 سے زائد دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
دوسری جانب پولیس حکام کے مطابق رواں سال تین ماہ میں پولیس پر 30 حملے کیے گئے جس میں 125 پولیس اہلکار جان سے گئے جبکہ 240 سے زائد زخمی ہوئے۔
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنما تحسین داوڑ کے مطابق کسی بھی آپریشن سے پہلے شمالی و جنوبی وزیرستان میں تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے ساتھ جرگہ کیا جائے۔
واضح رہے کہ جنوبی و شمالی وزیرستان میں عمائدین کی جانب سے جرگہ منعقد کیا گیا جس میں آپریشن سے متعلق اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ 

شیئر: