انہیں منع کیا جائے، باز رہنے کے لئے کہا جائے تو ایک نہیں سنتے، چکنے گھڑے بن جاتے ہیں
- - - - - - - - -
تسنیم امجد ۔ ریاض
-- - - - - - - -
وطن عزیز جو نہایت قربانیوں سے حاصل کیاگیا، آج دنیا کے غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔ ایک طرف تو عدم تحفظ کا احساس ہے اور دوسری جانب قانون شکنی بھی خوب کی جا رہی ہے ۔آج ہمارے وطن کے اکثر لوگ تمام مسائل حکومتوں کے سرتھوپ کر اپنی ذمہ داریوں سے خود کو عہدہ برآ محسوس کرتے ہیں۔ انہوں نے یہ حقیقت بھی فراموش کر دی ہے کہ ہم وہ قوم ہیں جس کا ماضی ایسا تابناک تھا کہ دوسری قومیں ہم پر رشک کرتی تھیں۔ہمارے آباء نے دین اسلام کی زریں تعلیمات کو اپنا کر ان کی تقلید کو اپنا شعار بنا لیاتھا۔انہوں نے باہم مل جل کر یکجہتی کی نہایت اعلیٰ مثالوں سے تاریخ رقم کی۔ مصائب کا استقامت اوراعلیٰ ظرفی سے مقابلہ کیا۔ آج صورت حال نہایت مخدوش ہے ۔ مغرب کی تقلید ہم فخر سے کررہے ہیں اور انجام کارہماری تخلیقی قوتیں مفلوج ہوتی جارہی ہیں۔ دھنک کے صفحے پر دی گئی تصویر حالات حاضرہ کی عکاس ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ یہ لوگ کس دھونس سے سرکاری ا راضی پر براجمان ہیں ۔
ان خواتین کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ اسلامی ریاست کی خواتین ہیں۔سوال یہ ہے کہ ان کی گود میں پلنے والے بچے وطن کو کیا مستقبل دے سکیں گے؟ ریلوے کا یہ سیکیورٹی ایریا ہے اور بہت ہی حساس ہے۔ ہمارے کرتا دھرتا ؤں کو کیا خبر نہیں کہ یہاں کس دھڑلے سے قانون شکنی ہورہی ہے۔ خطرہ دوطرفہ ہے انہیں ریل سے اور ریل کو ان سے ۔ کیا خبر یہ کب کسی رقم کے لالچ میں کسی کے ہتھے چڑھ جائیں۔ حادثے کی صورت میں شکایات کا دفتر کھول دیا جاتاہے۔ حکومت اور عوام کی مثال گاڑی کے دو پہیوں کی سی ہے جن کا صحیح حالت میں ہونا ضروری ہے۔ مسائل کی ذمہ دار اگرحکومت ہے تو عوام بھی برابر کے شریک ہیں۔ قانون شکنی کرنے والے شہری وہ ہیں جو شتر بے مہارکی طرح رہنا پسند کرتے ہیں۔
ہمارے وطن میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جنہوں نے زندگی کے ہر شعبے میں’’ کنڈا گردی‘‘عام کر رکھی ہے ۔ چیٹنگ، جھوٹ اور دھوکے سے کام لینا اپنا وتیرہ بنا لیا ہے۔یہ’’ کنڈا گردی‘‘ درحقیقت ایک سوچ ہے ، ایک کیفیت ہے اور رجحان ہے جس کے حامل افراد دھونس، دھاندلی اور دھڑلے سے سرکاری اور نجی ا ملاک و حقوق غصب کرتے ہیں۔ انہیں منع کیا جائے، باز رہنے کے لئے کہا جائے تو ایک نہیں سنتے، چکنے گھڑے بن جاتے ہیں۔صاحبانِ اختیار بھی ان کے آگے بے اختیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی ایک مثال ’’بجلی چور ‘‘ ہیں جو تاروں پر کنڈے ڈال کر بجلی چُراتے ہیں، اپنے گھر روشن کرتے ہیں۔کسی کی ایک نہیں مانتے۔ قانون بھی ان کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے،بجلی کا محکمہ ببانگ دہل اعتراف کرتا ہے کہ وہ ’’کنڈاگردوں‘‘ کے سامنے بے بس ہے ۔ یہی نہیں بلکہ وہ بجلی کا باقاعدہ بل ادا کرنے وا لے صارفین کو زائد بل بھیج کربجلی چوری سے ہونے والا نقصان پورا کرنے میں جُت جاتا ہے۔ ایسی ’’کنڈا گردی‘‘تعلیم ،صحت ، صحافت اور دیگر شعبوں میں بھی جاری ہے ۔
فرائض سے غفلت ہمارے اکثر شہریوں کا مزاج بنتی جا رہی ہے ۔ پیسہ ہی زندگی کا معیار بن چکا ہے۔ چیک اینڈ بیلنس یعنی روک و توازن (محکمانہ) کی کمی ہے۔ ہم نے جمہوریت رائج کرلی کیونکہ پہلی دنیا کی تقلید ضروری تھی لیکن یہ شعور نہ رکھا کہ اس نظام سے استفادہ کیسے اور کن شرائط پر کیا جاسکتا ہے۔ تعلیم اور بھوک کے حوالے سے عوام کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔ پیٹ بھرا ہوگا تو ووٹ نہیں بکے گا، تعلیم ہوگی تو امیدواروں کو جانچنے کا سلیقہ ہوگا۔ ایک خاتون نے بتایا کہ اس کی ماسی یعنی کام والی آئی اور دوبارہ کام پر لگنے کی منت کرنے لگی تو میں نے پوچھا دو ماہ قبل تو تم روکنے کے باوجود نوکری سے جواب دے گئی تھیں اب کیا ہوا؟ اس نے کہا کہ بی بی جی جسے ہم نے ووٹ ڈالنا تھا ،اس نے ہمیں 6ماہ کا راشن دلایا تھا اور بیٹے کو نوکری پر رکھنے کا وعدہ بھی کیاتھا۔اس لئے بیٹے نے مجھے نوکری چھوڑ نے پر مجبور کیا تھا۔انتخاب جیتنے کے بعد وہ نوکری دلوانے کا وعدہ بھول گیا۔ راشن بھی ہم نے دعوتوں میں اڑا دیا اور اب فاقوں کی نوبت آچکی ہے ۔
بی بی جی ووٹ ڈالنے کے دنوں میں میرے بیٹے نے لوگوں سے مار بھی کھائی، صرف اس لئے کہ ووٹ میرے ہی امیدوار کو ڈالیں۔ مخالف گروپ والے اسے پکڑ کر پیٹ دیتے تھے۔ یہ طرز عمل عام ہے، اکثر امیدوار اپنے گرد پیسے کی بنیاد پرووٹروں کو اکٹھا کر لیتے ہیں۔ غریب کو پیٹ بھر کر روٹی درکار ہوتی ہے۔ انہیں کیا خبر کہ وطن کی بہبود کیا ہوتی ہے ؟ کسی ملک کی خوشحالی اور ترقی کا اندازہ وہاں کے ذرائع آمدو رفت اور سہولتوں سے بآسانی لگایا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں اکثر سیاح اندرون ملک ریل پر سفر کرتے ہیں تاکہ گردو پیش کے نظاروں سے لطف اندوز ہوسکیں۔ آپ خود ہی سوچئے، ایسے نظارے جیسے تصویر میں دکھائے گئے ہیں، ان کے اثرات کیا ہونگے؟ ریلوے کی زبوں حالی پر افسوس اور شرمندگی ہوتی ہے۔
ہر آنے والی حکومت جانے والی کو کوستی ہے اور اسی کو کوسنے میں اپنا وقت گزار کر چلی جاتی ہے۔ محکمہ ریلوے کی جانب سے لاپروائی کے ذمہ دار خود اکثر اس کے عہدیداران ہوتے ہیں جنہیں اپنی جیبیں بھرنے کے سوا اور کچھ نہیں سوجھتا۔ پاکستان ریلوے جیسے عالیشان اورمستحکم ادارے کی تباہی کا منظر فوٹوگرافر کیمرے میںقید کرلیتے ہیں۔ واقعی یہ نہایت تکلیف دہ ہے۔ یہ رسل و رسائل کا وہ ذریعہ ہے جس نے جنوبی ایشیا کی تقدیر بدل کر رکھ دی تھی۔ سفر کے ساتھ لاجسٹکس کی سہولتوں سے برطانیہ بھی معاشی طور پر مستحکم ہو اتھا۔ اب بدقسمتی سے یہ ہے کہ محکمہ معاشی بوجھ کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ بقول شاعر : برباد گلستان کرنے کو بس ایک ہی اُلو کافی تھا ہر شاخ پر اُلو بیٹھا ہے، انجام گلستاں کیا ہوگا ریلوے کے ریستوران میں اشیائے خورونوش غیر معیاری ہونے کے ساتھ انتہائی مہنگی ہونے کی شکایت بھی کی جاتی ہے جسے سننے والا کوئی نہیں۔ ریلوے پولیس بھی بھتے کی بنیاد پر مسافروں کو بلاٹکٹ سفر کرنے کی ترغیب دیتی ہے جس میں قلی سے لیکر ٹکٹ چیکر تک ملوث ہوتے ہیں۔ آزادی کے وقت ہمارے حصے میں 10 ہزار کلومیٹر ریلوے لائن آئی تھی، اسے انگریز نے بچھایا تھا ۔ ہم نے جگہ جگہ سے اسے اکھاڑ کر بیچ ڈالا، طوالت میں اضافہ تو دور کی بات، انگریز کی بچھائی ہوئی ریلوے لائن کو جوں کا توں باقی رکھنا بھی ہمارے لئے چیلنج بن رہا ہے۔ ریلوے بوگیاں، اسٹیشن کا نظام اور ان کے گرد کے علاقوں پر کڑی نظر رکھنے کی ذمہ داری محکمہ ریلوے اور اس سے منسلک پولیس پر ہوتی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ہر شخص اپنے فرائض کو بخوبی سمجھتا ہے اور انہیں نبھانے کی کوشش کرتاہے۔ یہ ایک عمل یا عادت ہے جس کے لئے شہریوں کی تربیت بچپن میں ہی ہوجانی چاہئے۔ رشوت اور اقرباء پروری کو ہوا دینے والے شہری ہی ہیں جو ہر کام کیلئے بیچ کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ احکام الٰہی پر عمل پیرا ہونے سے یقینا ماحول سدھر سکتاہے۔ پاکستان ریلوے ایکٹ 1890 ء کے مطابق ریلوے کی سیفٹی کس قدر اہم ہے۔ ہم حادثات سے وقتی طور پرمتاثر ہوتے ہیں، اس کے بعد وہی روش جاری رکھی جاتی ہے۔ تصویر والے لوگ کبھی بھی ، کسی بھی وقت کسی دہشت گرد کے ہاتھوں بک سکتے ہیں ۔ ایسے میں نتائج کا ذمہ دار کون ہوگا؟