Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جازان ’ماہی گیری میلے‘ کی تاریخی اہمیت کیا ہے؟

گورنر جازان نے ہوائی فائر کے ذریعے میلہ کا اعلان کیا (فوٹو العربیہ نیٹ)
ہر برس کی طرح اس سال بھی جازان کے الحصیص ساحل پر ’مھرجان الحرید‘ (ماہی گیری میلہ) شروع ہو گیا ہے۔ گورنر جازان شہزادہ محمد بن ناصر نے میلے کا آغاز ہوائی فائر کرکے کیا۔ 
العربیہ نیٹ کے مطابق الحصیص ساحل جزیرہ فرسان کے باشندوں کے رہائشی علاقے سے پندرہ کلومیٹر دور واقع ہے۔ میلہ ایک ہفتے  تک جاری رہتا ہے۔ شروع ہونے سے ایک ہفتے قبل سمندر سے  خاص قسم کی بو آنا شروع ہوتی ہے جسے مقامی لوگ (البوسی) کہتے ہیں۔ یہ بو جزیرہ فرسان کی فضاؤں میں بس جاتی ہے اور گھروں، محلوں تک چھا جاتی ہے۔ 
 الحرید میلہ آتا ہے تومقامی لوگ مختلف قسم کے روایتی کھیل بھی کھیلتے ہیں۔ خواتین ہاتھوں میں مہندی لگا کر خوشی کا اظہار کرتی ہیں۔

گورنر جازان نے ہوائی فائر کے ذریعے میلہ کا اعلان کیا۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

جزیرہ فرسان میں میلہ شروع ہونے سے قبل سناٹے کاعالم ہوتا ہے۔ میلہ آتا ہے تو خاموشی ٹوٹ جاتی ہے اور ہر طرف جوش و خروش اور شور برپا ہو جاتا ہے۔ 
اس موقع پر ماہی گیری کے مقابلے ہوتے ہیں۔ اس سال عبدالرحمان مساوی اور محمد عقیلی نے اپنی نوعیت کا منفرد ریکارڈ قائم کیا۔ مقابلےمیں شریک سینکڑوں افراد میں یہ دونوں اس لحاظ سے منفرد رہے کہ انہوں نے سادہ جال کے ذریعے ایک منفرد مچھلی پکڑی۔ 
عبدالرحمان مساوی نے بتایا  کہ ’اس مچھلی کے حوالے سے ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ جس میں دیکھاجا سکتا ہے کہ ’البیاض‘ نسل کی ایک بڑی مچھلی میں پکڑے ہوئے ہوں اتنی بڑی مچھلی کسی نے اب تک شکار نہیں کی تھی۔‘ 

ایک ہفتے قبل سمندر سے  خاص قسم کی بو آنا شروع ہوتی ہے۔ (فوٹو العربیہ نیٹ)

مساوی نے بتایا کہ ’سچی بات یہ ہے کہ یہ مچھلی میرے دوست محمد عقیلی نے شکار کی۔ مقابلے میں شریک دوسرے ساتھی اسے شارک سمجھ کر موقع سے بھاگ گئے تھے۔ میرا دوست اتنی وزنی مچھلی اٹھانے سے قاصر تھا میں اسے اٹھا کر گورنر جازان شہزادہ محمد بن ناصر کے سٹیج تک لے گیا۔ انہوں نے اسے دیکھ کر بڑے مقابلے کا اعلان کردیا‘۔ 
ٹورسٹ گائیڈ عثمان حمق نے جازان میں ’الحرید‘ مچھلی میلے کے ماضی کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ 620 ھ مطابق 1223عیسوی میں وفات پانے والے  معروف مورخ ابن مجاور نے اپنی تصنیف  ’المستبصر‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’فرسان میں دو جزیرے ہیں۔ ایک (صور)، دوسرا (جدہ) ہے۔ جب سورج طلوع ہوکر دھوپ بکھیرنے لگتا ہے تو مقامی لوگ سمندر کارخ کرتے ہیں اور وہاں جاکر اس مچھلی کا شکار کرتے ہیں جو سال میں صرف ایک بار آتی ہے‘۔ 
عثمان حمق کا کہنا ہے کہ ’جزیرہ فرسان کے موجودہ باشندے قدیم زمانے سے رائج آباؤ اجداد کی اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ماضی میں الحرید میلے کے دوران شکار کی جانے والی مچھلیاں بازار میں فروخت نہیں ہوتی تھیں بلکہ رشتہ داروں اور دوست احباب کو تحفے کے طورپر پیش کی جاتی تھیں۔ قدیم زمانے میں مچھلی فروخت کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ 

میڈیا میں اب اس میلے کو بہت کوریج مل رہی ہے, (فوٹو العربیہ)

عثمان حمق کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں فرسان کے لوگ اونٹوں اور خچروں پر سوار ہو کر سمندر کا رخ کرتے تھے۔ شکار کے لیے جال بھی ساتھ لے کر جاتے تھے۔ کسی ایک کو گروپ لیڈر بنا لیتے تھے جو گروپ میں شامل دیگر افراد کو کام تقسیم کردیا کرتا تھا۔‘ 
عثمان نے بتایا کہ ’جب سے شہزادہ محمد بن ناصر جازان کے گورنر متعین ہوئے ہیں اور انہیں جزائر فرسان کے لوگوں میں رائج ماہی گیری کا پتہ چلا ہے تب سے انہوں نے اسے سالانہ میلے کی شکل دے دی ہے۔ اب یہ میلہ مقامی نہیں رہا بلکہ پورے علاقے کا میلہ بن گیا ہے۔  میڈیا بھی اس میلے کو بڑے پیمانے پر کوریج ملنے لگی ہے۔‘
 
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے اردو نیوز گروپ جوائن کریں

شیئر: