دبئی کے علاقے الراس میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں کم سے کم 16 افراد ہلاک جبکہ 9 زخمی ہوگئے ہیں، دبئی سول ڈیفنس کے مطابق آگ لگنے کی وجہ عمارت کی حفاظتی اقدامات پر عملدرآمد کی کمی تھی۔
رجیش ایک ٹریول اینڈ ٹورازم کمپنی میں بطور بزنس ڈیولمپنٹ مینیجر کام کرتے تھے جبکہ ان کی اہلیہ جیشی سکول میں ٹیچر تھیں۔
دونوں کا تعلق جنوبی انڈیا کی ریاست کیرالہ سے تھا اور وہ حادثے کے روز فصل کی کٹائی کا ہندو تہوار وِشو منا رہے تھے۔ اسی تہوار کی خوشی میں وہ وِشو سدھیا کی ڈِش تیار کر رہے تھے جو کہ سبزیوں سے بنائی جاتی ہے اور کیلے کے چھلکے پر رکھ کر پیش کی جاتی ہے۔
انہوں نے اپنے گھر مسلمان ہمسائیوں اور کیرالہ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو گھر پر افطار کے لیے مدعو کیا ہوا تھا۔
ریاس کائی کمبم، جو 409 نمبر اپارٹمنٹ میں سات لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر تھے، انہوں نے بتایا کہ 406 نمبر اپارٹمنٹ میں رہنے والا جوڑا بہت اچھا تھا۔
وہ تہواروں پر کائی کمبم اور اس کے دوستوں کو دعوت پر بلاتے تھے۔
’انہوں نے ہمیں اونم اور وِشو کے موقع پر اپنے گھر ظہرانے پر بلایا تھا۔ اس مرتبہ انہوں نے ہمیں افطار کے لیے بلایا کیونکہ اب رمضان چل رہا ہے۔‘
کائی کمبم نے جوڑے کو جب آخری مرتبہ دیکھا تو اس بارے میں بتایا کہ ’میں دیکھ سکتا تھا کہ ٹیچر رو رہی ہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ جوڑا اپنے سٹوڈیو فلیٹ میں واپس چلا گیا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’بعد میں کی جانے والی کالز کا کوئی جواب نہ ملا۔ میں نے رجیش کو واٹس ایپ پر آخری مرتبہ دوپہر 12 بج کر 35 منٹ آن لائن دیکھا تھا۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ جس آدمی نے اتوار کے روز کے لیے میری فلائٹ بُک کروانے میں میری مدد کی، جس نے مجھے افطار کے لیے بلایا وہ اب اپنے اہلیہ کے ساتھ اس دنیا سے جا چکا ہے۔‘
کائی کمبم کے رُوم میٹ سہیل کوپا جو آگ لگنے کے وقت گھر پر موجود نہیں تھے کہتے ہیں کہ ’اپنے ہمسائیوں کو کھونے پر ہم بہت غم زدہ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہم روز ملتے تھے اور سلام کرتے تھے۔ اس جگہ رہنے کا سوچ کر ہی خوف آ رہا ہے جہاں ہم نے اپنے 16 ہمسائے کھوئے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ ہمارے بہت قریب تھے۔‘
اسی سلسلے میں کالنگا دان فیملی کے فرد نے بتایا کہ جوڑا اگلے ماہ اپنے ڈریم گھر میں آنے کے لیے تیار تھا۔
رجیش کے چچا سُبرامانین نے گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے گھر کال کی اور سب کو دوپہر میں ہی وشو کی مبارک باد دی۔ اس خبرِ غم کے آنے تک سب خوش تھے۔ ان کے والدین صدمے سے دوچار ہیں۔‘