خیبر پختونخوا میں جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے الزام میں تحریک انصاف کے دو ہزار سے زائد کارکن گرفتار ہوئے مگر قیادت قانون کے ہاتھ نہ آ سکی۔
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد 9 مئی کو توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات خیبر پختونخوا میں بھی پیش آئے جس کے بعد پی ٹی آئی کے سابق وزراء سمیت صوبائی رہنماؤں اور کارکنوں پر 3 ایم پی او سمیت دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے۔
مزید پڑھیں
پولیس نے مقدمات کے تحت اب تک دو ہزار سے زائد کارکن گرفتار کیے مگر پی ٹی آئی کے صوبائی قائدین میں سے تاحال کسی کو گرفتار نہ کیا جا سکا۔
سابق وزیراعلٰی محمود خان، سابق وفاقی وزیر پرویز خٹک، سابق سپیکر مشتاق غنی، سابق وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا سمیت دیگر رہنما 9 مئی کے بعد سے منظرعام سے غائب ہیں تاہم انہوں نے آڈیو پیغام کے ذریعے کارکنوں سے یکجہتی کا اظہار کیا۔
نگران وزیر اطلاعات بیرسٹر فیروز جمال کے مطابق ابھی تک چار سابق ایم پی ایز گرفتار ہو چکے ہیں جن کا تعلق ملاکنڈ سے ہے جبکہ دیگر سابق صوبائی وزراء مفرور ہو چکے ہیں۔
کیا پی ٹی آئی کے رہنما گلگت بلتستان میں بیٹھے ہیں؟
نگران وزیر اطلاعات فیروز جمال نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبائی رہنماؤں میں سے بیشتر گرفتاری سے بچنے کے لیے دوسرے اضلاع چلے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کارکنوں کو جیل بھجواکر لیڈرز سیاحتی مقامات چلے گئے ہیں۔ ’ہم ان سب کی لوکیشن ٹریس کر رہے ہیں، بہت جلد قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘
سابق صوبائی وزراء کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ گلگت گلتستان میں پی ٹی آئی کی حکومت ہونے کی وجہ سے وہ سب وہاں موجود ہیں کیونکہ وہ ان کے لیے محفوظ مقام ہے۔
