Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’آڈیو لیکس کمیشن کالعدم قرارد نہیں دیا، تحقیقات کرانی ہیں تو طریقہ سے آئیں‘

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ ’عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں۔‘
عدالت نے پنجاب میں 14 مئی کے انتخابات پر نظرثانی کی  درخواستوں پر سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔ 
پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت  کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور  جسٹس منیب اختر بینچ کا حصہ ہیں۔
سماعت کا آغاز ہوا تو اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے نظرثانی کے قوانین منظور ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے نظرثانی کے قوانین کا اطلاق جمعے کے روز سے ہو چکا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ’اسی لیے الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے۔‘
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے اصل دائرہ اختیار آرٹیکل 184 تھری میں نظرثانی کا قانون بنایا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے نظرثانی اختیار کو وسیع کیا گیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے قانون کو لاگو کرتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آرٹیکل 184 تھری کے دائرہ اختیار کے کیسز میں نظر ثانی ہونی چاہیے۔ سپریم کورٹ کے ہی فیصلے آرٹیکل 187 کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار بڑھانے کی راہ دے رہے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ جج کی جانبداری کا بھی معاملہ اٹھایا گیا ہے۔ کیوریٹیو ریویو کا جو معاملہ آپ نے اٹھایا اس کو بھی دیکھ رہے ہیں۔
چیف جسٹس کی جانب سے جب پوچھا گیا کہ دوسری جانب سے کون آیا ہے؟
اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بیرسٹر علی ظفر آج نظر نہیں آئے۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ ’کیا آپ نے علی ظفر کو کچھ برا کہا ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’میں نے بیرسٹر علی ظفر کو کچھ نہیں کہا۔‘
اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’اس کیس کو فی الحال ملتوی کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہو جائے گا۔ جمعرات کو جوڈیشل کمیشن والا کیس مقرر ہے۔ اٹارنی جنرل اس بارے میں بھی حکومت سے ہدایات لے لیں۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے آڈیو لیکس کمیشن کیس میں ہمارا حکم نامہ پڑھا ہو گا۔ ذہن میں رکھیں کہ عدالت نے کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، عدالت نے عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے۔‘
چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے۔ یہ تاریخی ایکسیڈنٹ ہے کہ چیف جسٹس صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ ہم نے میمو گیٹ، ایبٹ آباد کمیشن اور شہزاد سلیم قتل کے کمیشنز کا نوٹیفکیشن دکھایا۔ تمام جوڈیشل کمیشنز چیف جسٹس کی مرضی سے تشکیل دیے جاتے ہیں۔ کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں خود پر مشتمل کمیشن تشکیل نہیں دوں گا۔ کسی اور جج سے بھی تحقیقات کرائی جا سکتی ہیں۔ سیاسی پارہ معیشت اور امن و امان کو بہتر نہیں کرے گا۔‘
عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے چار اپریل کو فیصلہ سناتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا تاہم 14 مئی کی ڈیڈ لائن گزرنے کے باوجود عدالتی حکم پر عمل نہیں ہوا۔
تین مئی کو الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کی تھی۔
وفاقی حکومت، نگران پنجاب حکومت اور تحریک انصاف مقدمے میں جوابات جمع کرا چکے ہیں۔

شیئر: