اقامہ کارڈ کسی دوسرے شہر سے پرنٹ کرایا جا سکتا ہے؟
اقامہ کارڈ کسی دوسرے شہر سے پرنٹ کرایا جا سکتا ہے؟
بدھ 31 مئی 2023 0:00
غیر ملکیوں کا اقامہ نمبر تمام سرکاری امور کے لیے استعمال ہوتا ہے (فوٹو: ٹوئٹر جوازات)
سعودی عرب میں غیر ملکیوں کا اقامہ نمبر تمام سرکاری معاملات کی انجام دہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اقامہ نمبر پرٹریفک چالان یا دیگر خلاف ورزیاں رجسٹرکی جاتی ہیں۔
جوازات کا ادارہ غیر ملکیوں کے رہائشی امور کی انجام دہی کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔ اقاموں کا اجرا اور ان کی تجدید جوازات کے ادارے سے ہی ہوتی ہے۔
جوازات کے ٹوئٹرپرایک شخص نے استفسار کیا ’کارکن کا اقامہ ریاض ریجن سے جاری کرایا ہے مگرفی الحال مکہ مکرمہ میں ہوں، کیا اقامہ کارڈ مکہ جوازات سے پرنٹ کرایا جاسکتاہے؟۔
سوال کا جواب دیتےہوئے جوازات کا کہنا تھا کہ’ اقامہ کارڈ جاری کرانے کے لیے ابشرپرکمانڈ دینے کے بعد ڈلیوری سروس کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں جو ابشراکاونٹ پرہی فراہم کی جاتی ہے‘۔
واضح رہے محکمہ پاسپورٹ جوازات میں ڈیجیٹل سروسز میں یہ سہولت بھی فراہم کی گئی ہے کہ اقامہ کارڈ اپنے مطلوبہ مقام پرطلب کی جاسکتی ہیں۔
محکمہ پاسپورٹ اور سعودی پوسٹ کے تعاون سے یہ سروس فراہم کی جاتی ہے جسے ’توصیل الوثائق ‘ کہا جاتا ہے۔
مطلوبہ ایڈریس پراقامہ کارڈ حاصل کرنے کےلیے لازمی ہے کہ محکمہ ڈاک کی جانب سے الاٹ کیا گیا ایڈریس درست ہو۔
مملکت سے ڈی پورٹ ہونے کے حوالے سے ایک شخص نے دریافت کیا ’جو افراد غیرقانونی طورپرمملکت گئے اور وہاں سے انہیں ڈی پورٹ کیا گیا۔ وہ دوبارہ ویزے پرسعودی عرب جاسکتے ہیں‘؟۔
جوازات کے قانون کے مطابق وہ افراد جوغیرقانونی طورپرمملکت جاتے ہیں اورگرفتاری پرانہیں ڈی پورٹ کردیاجاتا ہے وہ تاحیات مملکت کے لیے بلیک لسٹ کردیئے جاتے ہیں۔
ایسے افراد جنہیں ڈیپوٹیشن سینٹرکے ذریعے ملک بدر کیا گیا ہووہ کسی بھی دوسرے ویزے پرمملکت نہیں آسکتے۔
ڈی پورٹ ہونے والوں کی تمام تفصیلات محکمہ پاسپورٹ کے مرکزی سسٹم میں فیڈ کی جاتی ہے۔
امیگریشن اہلکاروں کو یہ سہولت ہوتی ہے کہ وہ آنے والے افراد کا ڈیٹا چیک کرسکیں۔ اگرڈی پورٹ ہونے والے کسی طرح مملکت آنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں مملکت میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔
واضح رہے اس قانون کے نفاذ سے قبل ڈی پورٹ ہونےوالوں کےلیے محدود مدت کا تعین کیاجاتا ہے۔
پابندی کی مدت ختم ہونے کے بعد انہیں دوسرے ویزے پرمملکت آنے کی اجازت ہوتی تھی تاہم رواں برس کے آغاز سے ہی امیگریشن قوانین میں ترمیم کی گئی ہے جس کے بعد ایسے افراد کو تاحیات بلیک لسٹ کردیا گیا ہے۔