Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’انگلش کرکٹ نسلی، جنسی اور طبقاتی امتیاز کی لپیٹ میں، فوری اصلاحات ضروری‘

رپورٹ کے مطابق کھلاڑیوں کو رنگ، نسل اور حیثیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا کرنا پڑتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
’کرکٹ میں مساوات‘ کے آزاد کمیشن کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانیہ میں کرکٹ کے اندر ’بڑے پیمانے پر گہری جڑوں‘ کے ساتھ نسلی، جنسی اور طبقاتی امتیاز ہر سطح پر موجود ہے جس کے خاتمے کے لیے فوری اصلاحات ضروری ہیں۔ 
اخبار گارڈین کے مطابق 317 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں چار ہزار کھلاڑیوں، کوچز، انتظامی اہلکاروں اور مداحوں سے شواہد ریکارڈ کیے گئے اور یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’یہ محض مذاق ہے اور نہ ہی چند گندے انڈوں کی بات‘ جو مسائل پیدا کر رہے ہیں۔ 
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے اس رپورٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے غیرمشروط معافی مانگی ہے کہ وہ اس امتیازی سلوک کے خلاف مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا۔ بورڈ نے کہا کہ رپورٹ کے اخذ کردہ نتائج کھیل کے لیے نہایت بنیادی اور اہم ہیں۔ 
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے اپنے بیان میں کہا کہ ’کرکٹ میں مساوات‘ کے آزاد کمیشن کی رپورٹ میں سامنے لائی گئی 44 سفارشات پر تین ماہ کے اندر عمل کیا جائے گا۔ 
کمیشن کی سربراہ سنڈی بٹس نے کہا کہ بنیادی تبدیلیوں کی فوری ضرورت ہے۔ ’ہمارے اخذ کیے نتائج غیرمبہم ہیں۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ امتیازی سلوک ہر سطح پر موجود ہے اور ’ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ کرکٹ ہر ایک کا کھیل نہیں ہے۔ُ

317 صفحات کی رپورٹ میں چار ہزار کھلاڑیوں، کوچز، انتظامی اہلکاروں اور مداحوں سے بات کی گئی ہے (فوٹو: اے پی)

ان کے مطابق ’نسل پرستی، طبقاتی، مالی حیثیت اور جنس کی بنیاد پر امتیاز کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ کرکٹ کو اس صورت حال کا سامنا کرنا چاہیے کیونکہ یہ مذاق نہیں ہے اور نہ ہی بہت کم پیمانے کا معاملہ ہے۔‘
یہ رپورٹ جو تباہ کن تنقید پر مشتمل ہے کھیل کی ناکامیوں کا بھی احاطہ کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کرکٹ میں نسل پرستی رچی بسی ہے اور یہ صرف ’جیبوں‘ تک محدود نہیں اور نہ انفرادی واقعات یا رویوں سے متعلق ہے۔

خواتین کو جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے (فوٹو: کرکٹ ڈاٹ کام)

کمیشن نے رپورٹ کی تیاری میں جن لوگوں سے رابطہ کیا ان میں سے پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے 87 فیصد، انڈیا سے 82 فیصد اور 75 فیصد سیاہ فام افراد کا کہنا تھا کہ ان کو کرکٹ کے دوران امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی طرح خواتین کو جنس کی بنیاد پر عام طور پر امتیازی سلوک کا رہتا ہے اور ان کی ٹیموں کے ساتھ اکثر ’توہین آمیز، دفیانوسی اور دوسرے درجے کا سلوک کیا جاتا ہے۔
رپورٹ اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہے کہ انگلینڈ کی خواتین کی ٹیم نے کرکٹ کا مرکز سمجھے جانے والے لارڈز میں ابھی تک ایک بھی ٹیسٹ میچ نہیں کھیلا۔

شیئر: