بلوچستان میں کوئلے سے بھرے 9 ٹرکوں کو آگ کیوں لگائی گئی؟
بلوچستان میں کوئلے سے بھرے 9 ٹرکوں کو آگ کیوں لگائی گئی؟
منگل 27 جون 2023 19:18
زین الدین احمد -اردو نیوز، کوئٹہ
پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع زیارت میں ہرنائی کوئٹہ شاہراہ پر نامعلوم عسکریت پسندوں نے کوئلے سے بھرے نو ٹرکوں کو آگ لگا کر تباہ کر دیا جبکہ چار ٹرکوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے۔
اس کے بعد موقعے پر پہنچنے والے ڈپٹی کمشنر کے قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی۔
یہ کوئلے کی ترسیل کرنے والے ٹرکوں پر ایک ماہ کے دوران دوسرا حملہ ہے۔ منگل کو رات گئے کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے ایک بیان جاری کر کے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی۔
خطرات میں اضافوں اور مسلسل حملوں کے باعث کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدور، ٹرک ڈرائیور، ٹھیکے دار اور مالکان خوف کا شکار ہیں اور ان کا روزگار اور کاروبار بھی متاثر ہے۔
ٹرانسپورٹرز نے تحفظ فراہم نہ ملنے کی صورت میں کوئلے کی ترسیل بند کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
حملہ آور قریبی پہاڑوں میں مورچہ زن تھے: ڈپٹی کمشنر
ڈپٹی کمشنر زیارت شبیر احمد بادینی نے اردو نیوز کو ٹیلی فون پر بتایا کہ پیر اور منگل کی درمیانی شب کوئٹہ سے تقریباً سو کلومیٹر دور ہرنائی جانے والی سڑک پر ضلع زیارت کی حدود میں مانگی کے مقام پر ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ڈی سی کے مطابق ’مسلح عسکریت پسندوں نے قریبی پہاڑوں سے اتر کر کوئلہ لے جانے والے ٹرکوں کو اسلحے کے زور پر روکا اور ڈرائیور اور عملے کو اتار کر ٹرک نذر آتش کر دیے۔‘
’انہوں نے آٹھ ٹرکوں اور ایک ڈمپر کو آگ لگائی جبکہ تین ٹرکوں اور ایک ڈمپر کے ٹائروں سے ہوا نکال دی گئی اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔‘
یہ ٹرک ہرنائی اور شاہرگ سے کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے مختلف علاقوں کی طرف جا رہے تھے۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق حملہ آور قریبی پہاڑوں میں مورچہ زن تھے۔
اس دوران ڈپٹی کمشنر ہرنائی محمد عارف زرکون کی گاڑی پر بھی فائرنگ کی گئی جو اپنے سکیورٹی سکواڈ کے ہمراہ کوئٹہ سے ہرنائی جاتے ہوئے وہاں سے گزر رہے تھے۔ تاہم دونوں واقعات میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اطلاع کے مطابق مسلح حملہ آوروں نے مسافر گاڑیوں کو بھی روکا اور ان کی تلاشی لی۔ اردو نیوز کو ملنے والی خبر کے مطابق اس دوران ایک شخص محمد سعید مغل کو اغوا بھی کیا گیا ہے تاہم ڈپٹی کمشنر کا کہنا ہے کہ ’اغوا کی خبر کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔ ہم اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یہ دور دراز واقع ایک ویران اور غیرآباد علاقہ ہے۔ یہاں پہاڑوں کے درمیان چیک پوسٹیں قائم کرنا آسان نہیں تاہم ان واقعات کے بعد چیک پوسٹیں قائم کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔‘
واقعے کے خلاف ہرنائی میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں نے احتجاج کرتے ہوئے دکانیں بند کرا دیں۔
شاہرگ میں ایف سی قلعہ کے قریب دھرنا دیا گیا اور کوئٹہ ہرنائی شاہرہ کو احتجاجاً بند کر دیا گیا۔
’سب ٹرک ڈرائیور خوفزدہ ہیں‘
احتجاج کی قیادت کرنے والے سید عارف شاہ کا کہنا تھا کہ ’ہم امن مانگ رہے ہیں۔ دو سو روپے سے زائد فی ٹن ٹیکس دینے کے باوجود کوئی محفوظ نہیں، مزدوروں، ٹھیکے داروں پر حملے ہو رہے ہیں لیکن اب تک یہ نہیں پتہ لگایا جا سکا کہ یہ کون لوگ کر رہے ہیں۔‘
ایک متاثرہ ٹرک ڈرائیور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’نقاب پوش حملہ آوروں نے ٹرک ڈرائیوروں اور عملے کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا اور دھمکی دی کہ اگر آئندہ ٹرکوں میں کوئلہ لے کر گئے تو ڈرائیوروں اور عملے کو بھی نہیں بخشا جائے گا۔ اس کی وجہ سے سب ٹرک ڈرائیور خوفزدہ ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ٹرک ڈرائیور مہینوں مہینوں گھر سے دور رہتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کما سکیں۔ اب تو ہم چند ہزار روپوں کی خاطر جان ہتھیلی پر رکھ کر کام کرنے پر مجبور ہیں۔‘
حاجی میرا کے دو ٹرک جلائے گئے۔ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ’ایک ٹرک کی قیمت ایک سے دو کروڑ روپے ہے، صرف اس ایک واقعے میں ٹرک مالکان کا کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔‘
حاجی میرا کے مطابق ’ٹرانسپورٹر زندگی بھر پیسہ جمع کر کے ایک ٹرک خریدتا ہے لیکن اسے اتنی آسانی سے جلا دیا جاتا ہے۔ ہم لوگوں کو روزگار کی فراہمی اور صوبے کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن اس کے بدلے میں حکومت ہمیں تحفظ ہی فراہم نہیں کر سکتی۔‘
’نقصان کا ازالہ نہ ہوا تو کوئلے کی ترسل بند کر دیں گے‘
آل بلوچستان گڈز ٹرک ٹرانسپورٹ کمپنیز ایسوسی ایشن کے صدر نور احمد کاکڑ نے اردو نیوز کو بتایا کہ جون میں یہ ہرنائی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کوئلے کی ترسیل کرنے والے ٹرکوں پر دوسرا حملہ ہے۔
’اس سے قبل جون کے آغاز میں اسی سڑک پر ہرنائی کے علاقے چھپر رفٹ کے مقام پر 42 ٹرکوں پر فائرنگ کر کے ان کے ٹائرز برسٹ کیے گئے اور انجن کو نقصان پہنچایا گیا جس پر ٹرانسپورٹرز نے ہڑتال کرتے ہوئے 12 دن تک ہرنائی اور شاہرگ سے کوئلے کی ترسیل بند رکھی۔‘
’ہم نے 13 جون کو بلوچستان بھر سے کوئلے کی سپلائی بند کرنے کا الٹی میٹم دیا تھا جس پر حکومت اور ایف سی حکام نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ایک ماہ کے اندر متاثرہ ٹرکوں کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کریں گے۔ اب جب ہم نے ان کی یقین دہانی پر دوبارہ سپلائی شروع کر دی تو ایک بار پھر ٹرکوں کو نشانہ بنایا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ٹرکوں پر حملے سے ٹرانسپورٹرز کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ بے امنی کی وجہ سے ہمارا کاروبار تباہ ہو رہا ہے۔ فروری میں ہرنائی اور شاہرگ کے کول ایجنٹس کے ساتھ معاہدے کے بعد ایف سی کو 230 روپے فی ٹن سکیورٹی کے نام پر دیے جا رہے ہیں لیکن اس کے باوجود امن وامان کی صورت حال بہتر نہیں ہوئی۔
’ٹرک مالکان کے نقصان کا ازالہ کرتے ہوئے معاوضہ ایک ماہ کے اندر ادا نہ کیا گیا تو دوبارہ کوئلے کی ترسیل بند کر سکتے ہیں۔‘
وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیاء اللہ لانگو نے ٹرکوں پر حملے کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام سے 24 گھنٹے میں واقعے کی رپورٹ طلب کر لی۔
ایک بیان میں ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ غفلت کے مرتکب افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی- انہوں نے متعلقہ حکام کو ملزمان کی فوری گرفتاری اور ٹرانسپورٹ کے مالکان کو انصاف کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانے کی ہدایت کی-
ماضی میں کوئلے سے صنعت سے وابستہ افراد کو کب کب نشانہ بنایا گیا؟
بلوچستان میں کوئلہ کے شعبے سے وابستہ افراد کم از کم ایک دہائی سے اغوا، قتل اور حملوں کا نشانہ بنتے آ رہے ہیں۔
نومبر 2022ء میں مچھ سے خیبر پختونخوا کے علاقے شانگلہ سے تعلق رکھنے والے پانچ کان کنوں سمیت چھ کان کنوں کو اغوا کیا گیا جنہیں کئی ہفتے بعد رہا کیا گیا۔
جون 2022ء میں کوئٹہ کے نواحی علاقے اسپین کاریز میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ایک انجینیئر اور تین کان کنوں کو اغوا کیا گیا۔
بعدازاں انجینیئر کی گولیوں سے چھلنی لاش ملی جبکہ کان کنوں کو تاوان کی ادائیگی کے بعد رہا کیا گیا۔
نومبر 2021 میں ضلع ہرنائی میں تین کان کنوں کو نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
جنوری 2021ء میں بلوچستان کے علاقے مچھ سے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے 10 کان کنوں کو اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔
’کوئلہ کالعدم مسلح تنظیموں کے لیے فنڈریزنگ کا اہم ذریعہ‘
پولیس کے انسدادِ دہشت گردی محکمے کے ایک عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’کوئلے کا شعبہ بلوچستان میں کالعدم مسلح تنظیموں کے لیے فنڈریزنگ کا اہم ذریعہ ہے۔ تنظیمیں باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتی ہیں، پھر یہ رقم دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے استعمال ہوتی ہے۔‘
ان کے بقول ’سکیورٹی اداروں نے کالعدم تنظیموں کی فنڈنگ کا یہ ذریعہ روکنے کے لیے دوردراز علاقوں میں چیک پوسٹیں قائم کیں تو انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی چیک پوسٹوں پر مسلسل حملے کیے گئے اور قافلوں کو بارودی سرنگ کے دھماکوں میں نشانہ بنایا گیا۔‘
سی ٹی ڈی عہدے دار کے مطابق ’ٹرانسپورٹ پر حملے بھی اس سلسلے کی کڑی ہے، پہلے مالکان سے بھتہ لیا جاتا تھا۔ اب ٹرانسپورٹرز کو بھی کہا جا رہا ہے۔‘
کوئلہ کی ترسیل کرنے والے ٹرانسپورٹرزکی تنظیم کے عہدے داروں نے سات جون کو کوئٹہ پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں تصدیق کی تھی کہ کوئلہ کان مالکان کے بعد اب کوئلہ خرید کر آگے فروخت کرنے والے ایجنٹس اور ٹرانسپورٹرز کو بھی بھتے کی پرچیاں موصول ہو رہی ہیں اور نہ دینے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
’قرض لے کر کانیں کھودنے کا کام شروع کیا‘
کچھی سے تعلق رکھنے والے ایک کوئلہ کان مالک نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مارواڑ، ڈیگاری، پیر اسماعیل، مچھ کے اطراف میں وہ کوئلہ کانیں جو سڑک اور آبادی سے دور دشوار گزار علاقوں میں واقع ہیں۔ کئی ماہ سے بند ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ’کبھی حکومت سے تو کبھی مسلح گروہوں کی جانب سے کام بند کرا دیا جاتا ہے۔ بارشوں سے کئی کانیں پہلے ہی متاثر ہیں، مسلسل بند رہنے کی وجہ سے ان میں پانی جمع ہورہا ہے جس کی وجہ سے کئی کانیں ناکارہ ہو چکی ہیں۔ علاقے کے ہزاروں خاندان دو وقت کی روٹی کے محتاج ہو رہے ہیں۔‘
’مارواڑ میں کوئلہ کئی سو فٹ گہرائی کے بعد ملتا ہے درجنوں ٹھیکیداروں نے لاکھوں روپے کا قرض لے کر کانیں کھودنے کا کام شروع کیا، جب کوئلے تک پہنچے تو ان کا کام بند کرا دیا گیا۔ اب قرض خواہ انہیں تنگ کر رہے ہیں۔‘
انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ
انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی بلوچستان کی کوئلہ کانوں سے متعلق نومبر 2022ء کی ’فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ‘ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں کوئلے کے شعبے سے وابستہ مزدوروں کو دوہرے خطرات درپیش ہیں۔ وہ نہ صرف صحت و حفاظت کے انتظامات نہ ہونے کے باعث حادثات کا شکار ہو رہے ہیں بلکہ مذہبی اور قوم پرست عسکریت پسندوں کے ہاتھوں اغوا اور قتل بھی کیے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’کئی کوئلہ کان مالکان نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کام بند کر دیا ہے۔ کوئلہ کان مالکان اور مزدور یونین کوئلہ کان والے علاقوں میں تعینات نیم فوجی ادارے فرنٹیئر کور سے ناخوش ہیں جو ان کے بقول سکیورٹی کے نام پر لاکھوں روپے جمع کرنے کے باوجود علاقے میں امن وامان قائم کرنے میں ناکام ہیں۔ مبینہ طور پر 280 روپے فی ٹن کے حساب سے غیر رسمی سکیورٹی ٹیکس لیا جاتا ہے جو کسی قانون کے زمرے میں نہیں آتا۔‘
انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ میں بھی کان کے مالکان نے بتایا کہ کچھ عسکریت پسند گروپ ان سے ’تحفظ‘ کے نام پر اضافی رقم وصول کرتے ہیں باوجود اس کے کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ کان کن اغوا یا قتل کے خطرے سے محفوظ رہیں گے۔
ایس ایچ آرسی پی کے بلوچستان میں نمائندے حبیب طاہر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ ’کوئلہ کان مالکان سے سکیورٹی کے نام پر ریاست بھی پیسہ لے رہی ہے اور پہاڑوں پر بیٹھے لوگ بھی ان سے اپنا شیئر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود کان مالکان اور نہ ہی کان کنوں کو تحفظ حاصل ہے۔‘
محکمہ معدنیات کے مطابق کوئٹہ، مچھ، ہرنائی، شاہرگ، دکی، چمالانگ سمیت بلوچستان میں کوئلے کے اڑھائی سو ملین ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔ یہاں کا کوئلہ پاکستان بھر میں اینٹوں کے بھٹوں اور سیمنٹ کے کارخانوں سے لے کر بجلی کے پاور پلانٹس تک کئی شعبوں میں استعمال ہوتا ہے۔
’کوئلے کی صنعت سے 35 لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے‘
ٹرانسپورٹر نور احمد کاکڑ کے مطابق بلوچستان بھر سے روزانہ 500 سے 700 ٹرک کوئلہ لے کر پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں کی طرف جاتے ہیں۔
بلوچستان میں کوئلے کی چھ ہزار سے زائد چھوٹی بڑی کانوں میں مختلف اوقات اور موسموں میں 40 سے 70 ہزار کان کن کام کرتے ہیں جن کی اکثریت خیبر پختونخوا کے علاقوں دیر، شانگلہ اور سوات اور افغانستان سے ہے جبکہ مزدور تنظیموں کے مطابق مزدوروں کی یہ تعداد ایک لاکھ سے بھی زائد ہے۔
کوئلہ کان مالکان کی تنظیم کے صوبائی جنرل سیکریٹری فتح شاہ کا دعویٰ ہے کہ ’مجموعی طور پر کوئلہ اور اس سے چلنے والی صنعتوں سے بلاواسطہ اور بالواسطہ تقریباً 35 لاکھ لوگوں کو روزگار مل رہا ہے۔‘
بلوچستان میں تو یہ لائیو سٹاک اور زراعت کے بعد روزگار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
فتح شاہ کے مطابق ’بے امنی کی وجہ سے کوئلہ کی کانیں یا سپلائی بند ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ غیرہنرمند مزدور متاثر ہوتے ہیں۔ وہ بے روزگار ہو کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔‘