Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلوچستان میں اختر مینگل اور ان کے مخالفین کی قبائلی لڑائی، ’عام لوگ پِس رہے ہیں‘

وڈھ میں قبائلی جنگ کے خدشے کی وجہ سے بلوچستان حکومت، قبائلی عمائدین اور علما کرام متحرک ہو گئے ہیں(فائل فوٹو: ڈی جی پی آر بلوچستان)
بلوچستان کے ضلع خضدار میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل کے آبائی علاقے میں گزشتہ کئی دنوں سے صورتحال کشیدہ ہے۔ سابق وزیراعلیٰ کے حامی اور مخالفین ایک دوسرے کے خلاف اسلحہ لے کر مورچہ زن ہیں۔
فریقین ایک دوسرے پر اپنے حامیوں کے اغوا اور دیگر سنگین الزامات لگا رہے ہیں۔ مسلح تصادم کے خدشے کے پیش نظر صوبائی وزیر داخلہ اور آئی جی پولیس بلوچستان وڈھ پہنچ گئے ہیں۔
خضدار میں تعینات ایک پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ کوئٹہ سے تقریباً 370 کلومیٹر دور خضدار کی تحصیل وڈھ میں سردار اختر مینگل اور مینگل قبیلے ہی سے تعلق رکھنے والے ان کے مخالف شفیق مینگل کے درمیان دیرینہ تنازع کی وجہ سے علاقے کے مکین شدید خوف کا شکار ہیں۔ کشیدگی کے باعث بدھ کو وڈھ بازار بھی مکمل بند رہا۔‘
انہوں نے بتایا کہ دونوں فریقوں کے درمیان طویل عرصے سے کشیدگی پائی جاتی ہے تاہم تازہ تنازع اس وقت پیدا ہوا جب 12 جون کو علاقے سے ایک شخص کو اغوا کیا گیا جس کا الزام سردار اختر مینگل کے حامیوں نے شفیق مینگل پر عائد کیا اور ان کی بازیابی کے لیے وڈھ میں قومی شاہراہ کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا۔
کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی شاہراہ  پورا دن بند رہی جس کی وجہ سے مسافر بسوں اور ٹرکوں سمیت گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں۔
ہزاروں مسافروں کو سخت گرمی میں سڑک کنارے انتظار کرنا پڑا۔
اس کے اگلے روز ایک بار پھر سردار اختر مینگل کے حامی سمجھے جانے والے شخص کی جوتوں کی دکان پر فائرنگ کی گئی جس کے بعد بازار بند ہو گیا۔

’خونی تصادم کا بہت زیادہ خطرہ ہے‘

پولیس افسر کے مطابق فریقین سیاسی میدان میں بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کی مخصوص نشست کے انتخاب  کی وجہ سے بھی کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’گزشتہ چار دنوں سے دونوں جانب سے سینکڑوں مسلح افراد وڈھ پہنچے ہوئے ہیں اور انہوں نے وڈھ بازار کے قریبی علاقے میں ایک دوسرے کے خلاف مورچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان کے پاس راکٹ لانچر اور جدید اسلحہ موجود ہے۔ خونی تصادم کا بہت زیادہ خطرہ ہے۔ اگر گولیاں چلیں تو بہت زیادہ نقصان ہو گا۔‘
پولیس افسر کے بقول صورتحال سے لوگ خوفزدہ ہیں، حکومتی رٹ چیلنج کرنے کا تأثر پختہ ہو رہا ہے۔ علاقے کی پولیس، لیویز اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ اتنی طاقتور ہے کہ وہ کھلم کھلا مسلح گھومنے والوں کے خلاف کارروائی کر سکے۔
وڈھ کی صورتحال کو سردار اختر مینگل کی جماعت سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر آغا حسن بلوچ نے قومی اسمبلی میں بھی اٹھایا کیا۔

اس تنازعے کو ختم کرانے کے لیے مقامی مذہبی علماء بھی کوشش کر رہے ہیں (فوٹو: واڈھ پریس کلب)

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک ڈیٹھ سکواڈ کی جانب سے لوگوں کو اغوا اور قتل کیا جا رہا ہے، ان کے سامنے فورسز بھی بے بس ہیں۔ وفاقی وزیر نے وفاقی حکومت اور سیکورٹی فورسز سے مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا۔‘
آغا حسن بلوچ کی تشویش پر اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے وفاقی وزیر دفاع کو ہدایات جاری کیں کہ حکومت صورتحال کا نوٹس لیں جس پر وفاقی وزیر خواجہ آصف نے یقین دہانی کرائی۔

فریقین کے ایک دوسرے پر الزامات

جمعرات کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں وڈھ سے منتخب رکن صوبائی اسمبلی بی این پی کے اکبر مینگل نے کہا کہ سردار اختر مینگل بلدیاتی انتخاب کی وجہ سے وڈھ پہنچے تھے۔ جب بھی آبائی علاقے پہنچتے ہیں تو ایک مسلح جھتہ متحرک ہو جاتا ہے۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس جھتے کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے اور انہیں بجٹ میں ترقیاتی فنڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔
دوسری جانب شفیق مینگل کے حامی جھالاوان پینل کے رہنما ندیم الرحمان نے جمعرات کو کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ’سردار اختر مینگل نے خدا بخش نامی ستر سالہ بزرگ کو کئی ماہ سے قید میں رکھا تھا، جس کی رہائی کے لیے قبائلی عمائدین نے جرگہ بلایا تو سردار اختر مینگل نے مسلح لوگ بلا کر علاقے کو یرغمال بنا لیا اور گزشتہ چار دنوں سے بازار بند کر رکھا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بی این پی کے سربراہ کے خاندان کے لوگ لشکر بلوچستان کے نام سے مسلح تنظیم اور ڈیٹھ سکواڈ چلاتے ہیں۔ لوگوں کو اغوا اور قتل کر کے ان کے کاروبار اور املاک پر قبضہ کر رہے ہیں۔‘
وڈھ میں قبائلی جنگ کے خدشے کی وجہ سے بلوچستان حکومت، قبائلی عمائدین اور علما کرام متحرک ہو گئے ہیں۔

پارلیمانی کمیٹی کی کوششیں

وزیراعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو  کی سربراہی میں رکن صوبائی اسمبلی میر یونس عزیز زہری، زاہد علی ریکی  پر مشتمل پارلیمانی کمیٹی، آئی جی پولیس عبدالخالق شیخ، کمشنر قلات اور ڈپٹی کمشنر کے ہمراہ وڈھ پہنچےجہاں انہوں نے سردار اختر مینگل اور شفیق مینگل سے علیحدہ علیحدہ ملاقاتیں کیں۔ وفد نے فریقین پر کشیدگی کو کم کرنے اور مسئلے کا پرامن حل نکالنے پر زور دیا۔
ضیا اللہ لانگو نے وڈھ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے۔ فریقین نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ مزید پیش قدمی نہیں کریں گے اور جنگ بندی کی مکمل پابندی کریں گے۔‘

ضیا اللہ لانگو نے وڈھ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگ کا خطرہ ٹل گیا ہے (فائل فوٹو: ڈی جی پی آر بلوچستان)

وڈھ کی صورتحال پر علاقے کے لوگ تشویش میں مبتلا ہیں تاہم عام لوگ ہی نہیں پولیس، لیویز اور انتظامیہ کے افسران بھی صورتحال پر کھل کر بولنے سے کتراتے ہیں۔

’کاروبار تباہ ہو چکا ہے‘

وڈھ میں کاروبار کرنے والے ایک ہندو تاجر(جو خوف کی وجہ سے اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ) نے بتایا کہ ’دونوں اپنے قبیلے کے طاقتور لوگ ہیں۔ ان کی جنگ میں عام لوگ پس رہے ہیں۔ روزانہ بازار یا پھر قومی شاہراہ بند ہوتی ہے۔ ایک فریق ہڑتال کر لیتا ہے تو دوسرا فریق بھی اگلے روز دکانیں اور سڑکیں بند کرا دیتا ہے۔ کاروبار تباہ ہو گیا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’قبائلی جنگ کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ عناصر بھی علاقے میں متحرک ہیں۔ وہ زبردستی بھتہ وصول کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران تین ہندو تاجر بھتہ نہ دینے پر قتل ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر بہت سے لوگ علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔‘

لڑائی کافی پرانی چلی آ رہی ہے

خیال رہے کہ وڈھ میں مینگل قبیلے کے دو خاندانوں کے درمیان رسہ کشی آج سے نہیں بلکہ اختر مینگل کے والد سردار عطا اللہ مینگل اور شفیق مینگل کے والد نصیر مینگل کے دور سے چلی آ رہی ہے۔
مقامی صحافیوں کے مطابق نئی نسل نے اس کشیدگی کو کم کرنے کی بجائے اسے مزید گھمبیر کردیا ہے۔

یہ کشیدگی اختر مینگل کے والد سردار عطا اللہ مینگل اور شفیق مینگل کے والد نصیر مینگل کے دور سے چلی آ رہی ہے (فوٹو: واڈھ پریس کلب)

بلوچستان کے سیاسی و قبائلی معاملات پر نظر رکھنے والے سینئر صحافی شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ ’گزشتہ دس پندرہ برسوں میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ فریقین گزشتہ کئی دہائیوں سے سیاسی میدان میں بھی ایک دوسرے کے مخالف رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف انتخابات بھی لڑے۔ اس لیے جب بھی انتخابات قریب آتے ہیں، تناؤ مزید بڑھ جاتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کوئی سیاسی نہیں بلکہ قبائلی جنگ ہے۔ دونوں نے اس کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنایا ہوا ہے۔ جو لوگ فریقین میں سے کسی کے ساتھ ہیں، وہ تو اس لڑائی کا حصہ ہیں لیکن اس صورتحال سے وڈھ اور خضدار کے لوگ ہی نہیں بلکہ اس علاقے سے  گزرنے والی قومی شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافر بھی متاثر ہوتے رہتے ہیں۔ آئے روز کبھی ایک گروپ بازار یا سڑک بند کردیتا ہے کبھی دوسرا۔‘

اختر مینگل اور شفیق بلوچ کون ہیں؟

سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اس وقت رکن قومی اسمبلی ہیں۔ وہ خود اور ان کے والد سردار عطاء اللہ مینگل بلوچستان کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ شفیق مینگل تحصیل ناظم جبکہ ان کے والد میر نصیر مینگل بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ، سینیٹر اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔
2005 میں سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر راکٹ حملے کا الزام شفیق مینگل پر عائد کیا گیا۔ اسی طرح 2011ء جب کوئٹہ میں  شفیق مینگل کے گھر پر حملہ ہوا تو اس کے مقدمے میں سردار عطا اللہ مینگل اور ان کے بیٹے جاوید مینگل کو بھی نامزد کیا گیا۔
شفیق مینگل کا ماضی متنازع رہا ہے۔ ان پر مسلح مذہبی تنظیموں سے تعلق، خودکش حملہ آوروں کو پناہ دینے جیسے سنگین الزامات لگتے رہے ہیں۔
سنہ 2014ء میں خضدار کے علاقے توتک سے لاپتہ افراد کی اجتماعی قبروں کی تحقیقات  کے لیے قائم بلوچستان ہائی کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں شفیق مینگل کا ذکر کیا تھا۔ 2014ء میں ان پر 8 لیویز اہلکاروں کے قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی اور کئی دیگر بلوچ تنظیمیں شفیق مینگل پر مسلح گروہ بنا کر جبری گمشدگیوں، قتل، اغوا اور بھتہ خوری میں ملوث ہونے کا الزام لگاتی رہی ہیں۔ ایسے ہی الزام شفیق مینگل اور ان کے حامی سردار اختر مینگل اور ان کے جلا وطن بھائی جاوید مینگل پر لگاتے ہیں۔

شیئر: