Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تربت دھماکہ: ’حملہ آور خاتون کے منگیتر نے بھی خودکش حملہ کیا تھا‘

سمعیہ قلندرانی کے منگیتر نے 2018 میں دالبدین میں چینی ماہرین کی بس پر خودکش حملہ کیا تھا۔ (فوٹو: بی ایل اے)
بلوچستان میں حکام کے مطابق تربت میں خودکش حملہ کرنے والی خاتون کی شناخت ہو گئی  ہے۔ ان کے منگیتر نے بھی 2018 میں چینی باشندوں پر خودکش حملہ کیا تھا- 
ضلع کیچ کے ہیڈکوارٹر تربت میں سنیچر کی شام کو ہونے والے خودکش حملے میں ایف سی اور پولیس کے قافلوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
پولیس اور بم ڈسپوزل سکواڈ کی ابتدائی تحقیقات کے مطابق حملہ خاتون خودکش حملہ آور نے کیا۔ خودکش جیکٹ میں تقریباً چار کلو گرام بارودی مواد اور بال بیرنگس استعمال کیے گئے تھے۔
دھماکے میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت اور خاتون سپاہی سمیت تین اہلکاروں کے زخمی ہونے کی تصدیق ہوئی تھی- 
دھماکے کے بعد مقامی پولیس نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ دھماکے سے پولیس کے ساتھ ساتھ ایف سی کی گاڑی کو بھی نقصان پہنچا تھا-
بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ایک بیان میں حملہ آور خاتون کی شناخت اور کوائف کی مختصر تفصیل جاری کی ہے۔
بی ایل اے کا دعوٰی ہے کہ اس کا ہدف پولیس نہیں بلکہ خفیہ ادارے کے افسران کا قافلہ تھا- 

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو نے خودکش حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ (فوٹو: اے پی پی)

بی ایل اے ترجمان کے مطابق یہ ’فدائی حملہ‘ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کی 25 سالہ سمعیہ قلندرانی نے سرانجام دیا جن کا تعلق خضدار کے علاقے توتک سے تھا-
 بی ایل اے کے بیان کے مطابق سمیعہ قلندرانی بی ایل اے کے سابق سربراہ اسلم بلوچ عرف اچھو کی بہو اور ان کے بیٹے ریحان بلوچ کی منگیتر تھیں-
خیال رہے کہ ریحان بلوچ نے خود 2018 میں دالبندین میں چینی ماہرین کی بس پر خودکش کار بم حملہ کر کے بی ایل اے کے ’فدائی مہم‘ کا آغاز کیا تھا-
جبکہ اسلم اچھو کی موت دسمبر 2018 میں افغانستان کے شہر قندھار میں ایک بم دھماکے میں ہوئی-
بی ایل اے کے بیان کے مطابق سمعیہ قلندرانی صحافت کے شعبے سے وابستہ رہیں اور پانچ برس سے بی ایل اے کے میڈیا ونگ میں کام کر رہی تھیں۔
وہ سات برس قبل بی ایل اے میں شامل ہوئیں اور چار برس سے اس کے  خود کش مشن ’مجید بریگیڈ‘ کا حصہ تھیں۔
بی ایل اے کے بیان میں دعوٰی کیا گیا ہے کہ سمعیہ قلندرانی کے دادا، چچا سمیت کئی رشتہ دار فروری 2011 سے لاپتہ ہیں- 

اپریل 2022 میں شاری بلوچ نے کراچی یونیورسٹی میں چینی زبان کے مرکز پر خودکش حملہ کیا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

وزیر داخلہ بلوچستان میر ضیا اللہ لانگو نے تربت میں خودکش حملے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے صوبے کے لیے المیہ قرار دیا- 
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس طرح کے واقعات ہمارے معاشرے کی خواتین کو تباہی کی جانب لے جانے کی ناکام کوشش ہے۔
ان کے مطابق ’تربت واقعے کے آقاؤں نے انسانیت کی تمام حدود کو پار کیا ہے اور بلوچی اور بلوچستان کی روایات اور عزت و عظمت کو پامال کیا ہے۔‘
 ضیاء اللہ لانگو نے کہا کہ خواتین کا اس گروہ کے ذریعے استحصال کیا گیا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جہنوں نے قبائلی نعروں پر لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔

بلوچستان میں سکیورٹی فورسز پر اس سے قبل بھی حملے ہوتے رہے ہیں (فوٹو: اے پی)

یاد رہے یہ بی ایل اے کی جانب سے کسی خاتون کا دوسرا خودکش حملہ ہے۔ گزشتہ سال اپریل میں کراچی یونیورسٹی کے احاطے میں چینی زبان کے مرکز کے قریب بھی خاتون خودکش حملہ آور نے دھماکہ کیا تھا جس میں تین چینی اساتذہ سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خودکش بمبار خاتون شاری بلوچ کا تعلق تربت سے تھا وہ سرکاری سکول کی ٹیچر اور ایم فل کی طالبہ تھیں- 
رواں سال فروری میں سی ٹی ڈی پولیس نے کوئٹہ کے علاقے سیٹلائٹ ٹاؤن سے ماہل بلوچ نامی خاتون خودکش بمبار کو گرفتار کیا تھا جن کے بارے میں سی ٹی ڈی کا دعوٰی تھا کہ ان کا تعلق بلوچ لبریشن فرنٹ سے ہے۔
بی ایل اے نے اپنے تازہ بیان میں ’فدائین‘ کے عنوان سے ایک تصویر بھی جاری کی ہے جس میں سات خواتین کو دکھایا گیا ہے۔ 

شیئر: