Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا: پیکا ایکٹ میں ترمیم کا فیصلہ

پی ٹی اے حکام کے مطابق ان ترامیم کے ذریعے متعلقہ محکموں کے اختیارات میں اضافے کے ساتھ سوشل میڈیا رولز میں مزید بہتری لائی جائے گی (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی وفاقی حکومت نے پریونشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (پیکا) میں ترمیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے وزیر قانون کی سربراہی میں قائم کمیٹی مجوزہ ترامیم کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے حکام کے مطابق ان ترامیم کے ذریعے پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے اختیارات میں اضافے کے ساتھ سوشل میڈیا رولز میں بھی مزید بہتری لائی جائے گی، جبکہ سرکاری پورٹلز کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے ای سیفٹی ایکٹ بھی لایا جا رہا ہے۔ 
ایکٹ میں مزید ترمیم کرتے ہوئے پروپیگنڈے کو روکنے اور پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف موثر کارروائی عمل میں لانے کے لیے نیا سیکشن شامل کرنے کے علاوہ سزائیں بھی تجویز کی جائیں گی۔  
پی ٹی اے حکام کے مطابق پیکا ایکٹ 2016 پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف کارروائی میں کوئی مدد نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کے پاس جتنی بھی شکایات گئی ہیں وہ انہیں حل کرنے میں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام رہے ہیں۔  
ترمیم کی ضرورت کیوں پڑی؟  
اس حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ گذشتہ سال ستمبر میں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف اور رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشد عالم 65 ویں کامن ویلتھ پارلیمانی کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے۔ اس دورے کے دوران سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کیا گیا کہ اس کے لیے پاکستان کا 25 رکنی وفد گیا ہے اور قومی خزانے سے 16 لاکھ امریکی ڈالر خرچ ہوئے ہیں۔  
وطن واپسی پر اس پروپیگنڈے کے جواب میں رکن قومی اسمبلی رومینہ خورشید عالم نے تحریک استحقاق جمع کروائی۔ جس پر پیمرا، پی ٹی اے اور وزارت اطلاعات کے حکام کو طلب کیا گیا۔  
متعلقہ اداروں نے بتایا کہ اس حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں کوئی خبر شائع نہیں ہوئی بصورت دیگر پیمرا اور پریس کونسل آف پاکستان ایکشن لینے کی مجاز تھے۔  
بات جب پی ٹی اے اور ایف آئی اے کی عدالت میں پہنچی تو معلوم ہوا کہ وہ پیکا ایکٹ کے تحت پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف ایکشن بھی لیں تو کوئی بڑی سزا نہیں دے سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایکٹ میں جن جرائم کا ذکر ہے ان میں پروپیگنڈا شامل ہی نہیں ہے۔  
جس کے بعد معاملہ وزیراعظم شہباز شریف کے نوٹس میں لایا گیا جنھوں نے ایک ٹاسک فورس قائم کرتے ہوئے وزیر قانون کو اس کا سربراہ بنایا۔ اس ٹاسک فورس نے پیکا ایکٹ میں ترامیم کے لیے ایک کمیٹی بنائی جس کی سربراہی بھی وزیر قانون خود ہی کر رہے ہیں۔  
یہ کمیٹی پی ٹی اے، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ایف آئی اے کی تجاویز کی روشنی میں ترامیم کا مسودہ تیار کر رہی ہے۔ یہ مجوذہ ترامیم اس وقت وزیر قانون کے پاس ہیں جو جلد ہی منظوری کے لیے وزیراعظم اور کابینہ کو پیش کریں گے۔ جس کے بعد آرڈینینس کے ذریعے ان کو نافذ کیا جائے گا۔  

حکام کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی کوشش ہے کہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی آرڈینینس نافذ کر دیا جائے‘ (فوٹو: ٹیک جوس)

حکام کا کہنا ہے کہ ’حکومت کی کوشش ہے کہ مدت ختم ہونے سے پہلے ہی آرڈینینس نافذ کر دیا جائے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ نگران حکومت میں بھی ان ترامیم کو نافذ کر دیا جائے کیونکہ اس سے صرف حکومت یا حکومتی ادارے ہی نہیں بلکہ کوئی جماعت یا فرد اپنے خلاف جھوٹے پراپیگنڈے کے خلاف شکایت کرنے کا حق رکھے گا۔‘  
سائبر کرائم کون کون سے ہیں؟  
پاکستان کے پیکا ایکٹ کے مطابق جن سائبر کرائمز کی نشان دہی کی گئی ہے ان میں ڈیٹا یا انفارمیشن سسٹم تک بلااجازت رسائی یا مداخلت اور ڈیٹا کی کاپی یا کسی دوسری جگہ ٹرانسفر کرنا، ڈرانا، دھمکانا، سوسائٹی میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے ارادے سے ان جرائم میں سے کسی ایک پر عمل کرنے کی دھمکی دینا سائبر کرائم کے زمرے میں آتا ہے۔
اس کے علاوہ کسی بھی انفارمیشن سسٹم یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی سے متعلق کسی جرم کی تعریف کرنے کے ارادے سے معلومات تیار کرنا یا پھیلانا، یا دہشت گردی سے متعلق کسی بھی فرد کو زبردستی، ڈرانے، دھمکی دینے کے ارادے سے مذکورہ بالا جرائم میں سے کسی کا ارتکاب کرنے کی دھمکی دینا، جبکہ انٹرنیٹ یا ڈیوائس کے ذریعے دہشت گردی کے لیے فنڈنگ، بھرتی کرنے کی ترغیب یا نفرت انگیز مواد کا پھیلاؤ بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔  
اسی طرح کسی بھی انفارمیشن سسٹم، ڈیوائس یا ڈیٹا میں مداخلت کر کے عوام کو نقصان پہنچانا یا کوئی غیرقانونی دعویٰ کرنا۔ کسی بھی شخص کو جائیداد سے الگ کرنے کی وجوہات بنانا یا کوئی معاہدہ کرنے کے لیے فراڈ کرنا، ڈیٹا تبدیل کرنا، حذف کرنا یا چھپانا اور کسی دوسرے شخص کی شناخت یا اس سے متعلق معلومات کا بغیر اجازت یا بلاتصدیق استعمال بھی سائبر جرائم میں شامل ہے۔  
صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی دوسرے شخص کے نام پر بغیر اجازت سم کارڈ خریدنا، کسی بھی شخص کو جنسی طور پر تعلق قائم کرنے کی ترغیب دینا، کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانا، بدلہ لینا، نفرت پیدا کرنا یا کسی شخص کو بلیک میل کرنا اور کسی قانونی جواز کے بغیر ایسا مواد رکھنا جس میں چائلڈ پورنوگرافی کے عناصر موجود ہوں یا کسی آلے کے ذریعے ایسا مواد تیار کرنا، کسی دوسرے کو دستیاب کرنا، تقسیم کرنا یا اپنے اور کسی دوسرے شخص کے لیے خریدنا بھی سائبر کرائم میں شامل ہے۔  
حکام کے مطابق وسیع معنوں میں پروپیگنڈا کو ساکھ خراب کرنے کے جرم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن کسی بھی گروہ کی جانب سے منظم پروپیگنڈا کی تعریف اس قانون کا حصہ نہیں ہے اس لیے مزید ترمیم کی تجویز دی گئی ہے۔  
سوشل میڈیا رولز میں بہتری  

پی ٹی اے حکام کے مطابق سوشل میڈیا رولز کے نفاذ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

پی ٹی اے حکام کے مطابق سوشل میڈیا رولز کے نفاذ میں شدید مشکلات کا سامنا ہے جن میں خاص طور پر سوشل میڈیا کمپنیوں کے پاکستان میں دفاتر کا نہ ہونا ہے۔  
حکام نے بتایا کہ ٹویٹر پر اعتزاز احسن کے نام سے ایک ٹوئٹر اکاؤنٹ چلایا جا رہا ہے۔ پی ٹی اے اور ایف آئی اے مل کر بھی اس اکاؤنٹ کو بند نہیں کروا سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کمپنیوں کے کمیونٹی سٹینڈرڈز بعض اوقات پاکستان کے قوانین کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔ ’ہم جب اس اکاونٹ کو رپورٹ کرتے ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ اس اکاؤنٹ سے کمپنی کے کسی کمیونٹی سٹینڈرڈ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔‘
اس حوالے سے حکام کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا رولز کو مزید بہتر کیا جائے اور پہلی کوشش یہ ہوگی کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان میں اپنے دفاتر کھولیں۔ اگر یہ کمپنیاں پھر بھی اپنے دفاتر نہیں کھولتیں تو ایسی صورت میں مقامی سطح پر ایسی قواعد بنائے جائیں گے کہ متعلقہ مواد کو ہٹانے، بلاک کرنے کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈا کرنے والے فرد کو ٹریس کرکے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔  

شیئر: