اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کو کالعدم قرار دے دیا
جمعہ 8 اپریل 2022 12:52
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
عدالت نے کہا ہے کہ ’اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے جو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ پیکا ترمیمی آرڈیننس 2022 کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے کالعدم قرار دے دیا ہے۔
جمعے کو پاکستان فیڈرل یونین آف جنرلسٹ کی درخواست پر جاری مختصر حکم نامے میں چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نئے آرڈیننس کے علاوہ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں لائے گئے پیکا ایکٹ کی شق 20 کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔
عدالتی فیصلے کے مطابق ’پیکا ترمیمی آرڈیننس 2020 کا نفاذ آئین اور اس کے نتیجہ میں ملنے والے بینادی حقوق کی توہین ہے جن کا تحفظ آئین کے آرٹیکل 9، 14، 19 اور 19 اے میں کیا گیا ہے۔ اس وجہ سے اس آرڈیننس کے نفاز کو غیرآئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔‘
عدالت نے کہا ہے کہ ’اظہار رائے کی آزادی بنیادی انسانی حق ہے جو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے اور جسے آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے میں تحفظ حاصل ہے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہتک عزت کو قابل گرفتاری اور قید جرم قرار دینا اور اس کے نتیجے میں ڈر اور خوف کی فضا پیدا کرنا آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ‘
اس کے علاوہ عدالت نے تفصیلی فیصلے میں پیکا 2016 ایکٹ کی سیکشن 20 میں ہتک عزت اور اس کی سزا کو بھی آئین سے متصادم قرار دے کر کالعدم قرار دیا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے ’پریوینشن آف الیکٹرانک ایکٹ‘ (پیکا) میں ایک آرڈیننس کے ذریعے ترمیم کرتے ہوئے ’جعلی خبر‘ چلانے پر سزا تین برس سے بڑھا کر پانچ برس کر دی تھی اور اسے ایک ناقابل ضمانت جرم کی شکل دے دی تھی۔
عدالت نے صحافیوں کے خلاف اس طرح کے تمام مقدمات کو ختم کر دیا ہے تاہم شکایت کرنے والے ہتک عزت کے دیگر متعلقہ قوانین کے تحت عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
عدالت نے اپنے حکم نامے میں توقع ظاہر کی ہے کہ وفاقی حکومت ہتک عزت کے قوانین خاص طور پر ہتک عزت آرڈیننس 2002 کا جائزہ لے گی اور اس کو موثر بنانے کے لیے قانون سازی کرے گی۔
فیصلے میں وزارت داخلہ کے سیکریٹری کو ہدایت کی گئی ہے کہ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے اہلکاروں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال اور شہریوں کے حقوق کی پامالی کے الزامات پر تحقیقات کریں۔
عدالت نے سیکریٹری داخلہ کو 30 دن کے اندر تحقیقات مکمل کر کے متعلقہ اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت بھی کی ہے۔
سابق وفاقی وزیر قانون فروغ نسیم نے رواں برس فروری میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اب فیک نیوز چلانے پر تین برس کی جگہ پانچ برس سزا ہوگی اور یہ ناقابل ضمانت ہوگا۔ میڈیا تنقید کرنا چاہتا ہے تو کرے لیکن فیک نیوز نہیں ہونی چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ان مقدمات کا ٹرائل چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ اگر اس مدت میں ٹرائل مکمل نہیں ہوتا تو متعلقہ ہائی کورٹ اس جج سے ٹرائل مکمل نہ ہونے کے بارے میں پوچھے گا۔ اگر کوئی وجہ نہ ہوئی تو اس جج کو سزا دی جائے گی۔‘
پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان ترمیم کردہ قوانین کو ’جمہوریت کے منافی‘ قرار دے دیا تھا۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے کہا تھا کہ ’ریاست پر آن لائن تنقید پر قید کی سزا کو دو سے بڑھا کر پانچ برس کرنے اور اسے ناقابل ضمانت جرم قرار دینے کا مجوزہ قانون جمہوریت کے منافی ہے۔‘
’(یہ مجوزہ قانون) حکومت اور ریاست سے اختلاف اور ان پر تنقید کرنے والی آوازوں کو خاموش کرانے کے لیے استعمال ہوگا۔‘