پیکا ترمیمی آرڈیننس پر حکومت کے وزرا کے بیانات متضاد کیوں؟
پیکا ترمیمی آرڈیننس پر حکومت کے وزرا کے بیانات متضاد کیوں؟
جمعرات 24 فروری 2022 5:45
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
وفاقی وزیر امین الحق نے وزیراعظم سے متنازع ترمیم واپس لینے کا کہا ہے۔ فائل فوٹو اے ایف پی
پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف میڈیا سول سوسائٹی اور اپوزیشن کی شدید تنقید کے بعد حکومتی حلقوں میں بھی اختلافات کھل کر سامنے آئے ہیں۔
بدھ کو وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی امین الحق نے وزیراعظم کو باقاعدہ خط لکھ کر متنازع ترمیم واپس لینے کا مطالبہ کیا تو دوسری جانب وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کھل کر ترمیم کی حمایت کر رہے ہیں۔
جبکہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اس کا غلط استعمال روکنے کے لیے نئی دفعات شامل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
فواد چوہدری کی اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کے دوران اس سوال پر کہ وفاقی وزیر امین الحق نے پیکا قانون کو واپس لینے کے لیے خط لکھا ہے اور اٹارنی جنرل بھی اس کی مخالفت کر رہے ہیں تو فواد چوہدری نے کہا کہ ’کوئی مخالفت نہیں کر رہا۔ اٹارنی جنرل صاحب بھی آ رہے ہیں، میں ان سے یہ بات سمجھنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے یہ بات کہی کیوں۔ ابھی جو یہ ساری قانون سازی ہوئی ہے، ان میں اٹارنی جنرل اور امین الحق صاحب دونوں شامل تھے۔‘
فواد چوہدری نے کہا کہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ وفاقی وزیر اور اٹارنی جنرل کا نقطہ نظر کیا ہے۔
حکومتی صفوں میں اختلافات
وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے بھرپور دفاع کے باجود اس متنازع آرڈیننس کے حوالے سے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے منگل کو مقامی ٹی وی میں تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ یہ آرڈیننس موجودہ شکل میں نافذ نہیں ہو گا۔
بدھ کو اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا تھا کہ آرڈیننس تو واپس نہیں لیا جائے گا مگر اس میں ایسی دفعات شامل کی جائیں گی جس سے اس کا غلط استعمال روکا جا سکے۔
’موجودہ آرڈیننس ہر کیس پر لاگو نہیں ہوگا، اس میں ایسے ایس او پیز وضع کیے جائیں گے جس سے یہ یقینی بنایا جائے گا کہ اس کا غلط استعمال ممکن نہ ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ان ایس او پیز اور دفعات کو پیش کریں گے اور اس حوالے سے مزید تفصیلات بھی عدالت کے سامنے رکھی جائیں گی۔
وفاقی وزیرانفارمیشن ٹیکنالوجی نے بدھ کو وزیراعظم عمران خان کو لکھے گئے خط میں کھل کر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کہا کہ وہ متنازع آرڈیننس کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ترامیم سے متفق نہیں کیونکہ اس میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا کے تحت گرفتار نہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فوٹو اے ایف پی
خط میں انہوں نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ پیکا آرڈیننس کے خلاف میڈیا اور دیگر سٹییک ہولڈرز کے احتجاج پر غور کریں اور فوری طور پر میڈیا اور دیگر متعلقہ حلقوں سے وسیع البنیاد مشاورت کا آغاز کریں۔
ان کا کہنا ہے کہ ترامیم میں بلاضمانت گرفتاری اور فیک نیوز کی تشریح نہ ہونے سے ملک میں بے چینی پھیل رہی ہے اس حوالے سے صحافتی تنظیموں، انسانی حقوق تنظیموں و ماہرین کی رائے لی جاتی تو بہتر ترامیم ہو سکتی تھیں۔
تاہم اردو نیوز کو دستیاب وزارت آئی ٹی کی کابینہ کو بھیجی گئی سمری کے مطابق ’وزیر آئی ٹی اور ٹیلی کام نے پیکا ترمیم کی سمری میں موجود تجاویز کو منظور کیا ہے۔‘
اس حوالے سے اردو نیوز کی جانب سے متعدد بار کوشش کے باجود وفاقی وزیر آئی ٹی امین الحق سے رابطہ نہیں ہو سکا۔ تاہم ان کے دفتر کی جانب سے خط کی تصدیق کے ساتھ ہی ان سے منسلک ایک بیان میڈیا سے شئیر کیا گیا ہے جس میں ان کا کہنا تھاکہ ’ہم حکومت کے اتحادی ہیں لیکن عوام کےبنیادی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی تنظیم سے تعلق اہم ہے۔ ایم کیوایم کے اندازِ سیاست میں بنیادی حقوق کےخلاف قوانین کی حمایت کسی صورت نہیں کر سکتے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ترمیمی آرڈیننس حکومت کی عوامی حمایت کے لیے خطرہ اور آزادی اظہار رائے کے خلاف ہے۔
پیکا آرڈیننس کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم
واضح رہے کہ پیکا آرڈیننس کو پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلنسٹ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن نے بھی اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے صحافتی تنظیم کی درخواست پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کو پیکا آرڈیننس کی شق 20 کے تحت گرفتاری سے روکتے ہوئے اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کر دیا تھا۔