آج پاکستان میں نگران وزیرِاعظم کی تلاش اور انتخاب بحث و مباحثے کا مرغوب موضوع ہے۔
ٹھیک 30 برس قبل دیگر ہنگامہ خیر سیاسی واقعات کے پہلو بہ پہلو ایک نگران وزیراعظم کی تلاش کی صورت میں پاکستانی سیاسی تاریخ کا انوکھا باب لکھا جا رہا تھا۔
مزید پڑھیں
-
جب ہیوی مینڈیٹ ہی نواز شریف کا بڑا دشمن ثابت ہواNode ID: 541686
-
1993 میں نواز شریف کی حکومت کیوں نہ بچ سکی؟Node ID: 671916
-
دھڑے بندی: حالات کا جبر یا اقتدار کی خواہش؟Node ID: 773516
اگرچہ پاکستان کی اقتدار کی تاریخ میں سربراہان حکومت کی ایوانِ اقتدار سے بے دخلی اور رخصتی کے محیّر العقول واقعات پہلے بھی موجود تھے مگر ایک ہی رات میں صدر مملکت، وزیراعظم ،چاروں صوبوں کے گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کی ایک ساتھ حکومتی عہدوں سے رخصتی کا شاید پہلا اور آخری موقع تھا۔
مئی 1993 میں سپریم کورٹ سے نواز شریف حکومت کی بحالی کے باوجود صدر اور مسلم لیگ نون کی حکومت کی حریفانہ کشمکش نئے بحران میں ڈھل گئی۔
جولائی کے اوائل میں صدر، وزیراعظم قائد حزب اختلاف اور آرمی چیف کے درمیان پے در پے ملاقاتوں سے بحران کے خاتمے کی راہ نکل آئی ۔اس سیاسی کھیل کے دو بڑوں غلام اسحاق خان اور نواز شریف کی ایوان اقتدار سے رخصتی کا فیصلہ ہوا ۔
اس فیصلے کی جزیات طے کرنے کے لیے ہونے والی میٹنگ میں صدر کی نمائندگی مشہور بیوروکریٹ روئیداد خان نے کی۔ وزیراعظم کی طرف سے سرتاج عزیز اور جنرل مجید ملک شریک تھے۔ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جاوید اشرف قاضی اور کور کمانڈر راولپنڈی آرمی چیف کی تجاویز کے ساتھ موجود تھے۔
روئیداد خان اپنی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں اس ساری کشمکش کی تفصیل بیان کرتے ہیں۔
ان کے مطابق جنرل عبدالوحید کاکڑ نے صدر اور وزیراعظم کو بحران ٹالنے کے لیے رضاکارانہ طور پر مستعفی ہونے پر رضامند کیا تھا۔

اٹھارہ جولائی کی رات ایوان صدر میں ایک ساتھ حلف برداری کی دو تقاریب کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ایک نگران وزیراعظم کی اور دوسرے قائم مقام صدر کے لیے۔
اس دور کے چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد قائم مقام صدر کی ذمہ داریاں سنبھالنے والے تھے مگر نگران وزیراعظم کا نام ابھی بھی صیغہ راز میں تھا۔
ایک روز قبل جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تحلیل کے فارمولے پر اتفاق رائے ہو گیا تو اچانک غلام اسحاق خان بولے ’نگران وزیراعظم کون ہو گا؟‘
نگران وزیراعظم کو کہاں سے ڈھونڈا گیا؟
جس پر جاوید اشرف قاضی نے جواب دیا ’معین قریشی ہوں گے مگر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ انہیں کیسے تلاش کیا جائے۔‘
اگلے ماہ موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد ممکنہ نگران وزیراعظم کے نام اور پس منظر کے بارے میں بحث اور پیشنگوئیاں عروج پر تھیں ۔
کچھ حلقے دگرگوں معاشی حالات کے سبب اقتصادی انتظام کے کسی ماہر ٹیکنوکریٹ کی تعیناتی کے امکانات ظاہر کر رہے ہیں۔
نگران وزیراعظم بننے والے معین قریشی ماضی میں ورلڈ بینک کے ساتھ بطور سینیئر وائس پریزیڈنٹ وابستہ رہ چکے تھے۔
مسلم لیگ کی سابقہ حکومت میں وزیر خزانہ رہنے والے سیاست دان سرتاج عزیز بھی اس میٹنگ میں موجود تھے ۔انہوں نے جاوید اشرف قاضی کو جواب دیا: ’میں انہیں تلاش کر سکتا ہوں۔‘
عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ سرتاج عزیز سے دیرینہ آشنائی معین قریشی کے وزیراعظم بننے کا باعث تھی ۔مگر سرتاج عزیز اپنی کتاب "Between Dreames and Realities" میں اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں۔
ان کے مطابق معین قریشی کا نام میاں نواز شریف نے واشنگٹن میں موجود اپنے ایک قریبی دوست کے مشورے پر تجویز کیا تھا۔
سرتاج عزیز پاکستان کے نگران وزیراعظم کی تلاش کے بارے میں اس لیے پر اعتماد تھے کہ ایک ہفتہ قبل کراچی سے چین روانگی سے قبل معین قریشی نے ٹیلی فون پر ان سے رابطہ کیا تھا۔
انہوں نے اپنے دوست کی تلاش شروع کی تو پتہ چلا کہ وہ دو دن قبل چین سے بینکاک جا چکے ہیں ۔پریشانی کے عالم میں انہوں نے بینکاک میں پاکستانی سفارت خانے کی مدد سے انہیں ڈھونڈنا چاہا۔
سرتاج عزیز کی تشویش اس وقت بڑھ گئی جب انہیں سفارت خانے نے بتایا کہ وہ تھوڑی دیر قبل سنگاپور روانہ ہو چکے ہیں۔
متعدد رابطوں اور کوششوں کے بعد بالاخر معین قریشی کو تلاش کر لیا گیا۔

’سرتاج تمہیں معلوم ہے کہ میں کینسر کا مریض ہوں اور انے والے دس دنوں میں کیموتھراپی کے اگلے مرحلے کے لیے ہسپتال میں داخل ہونے والا ہوں۔ صحت کی ایسی صورتحال میں یہ پیشکش کیسے سے قبول کر سکتا ہوں‘
سرتاج عزیز کو معین قریشی سے نگران وزیراعظم کی پیشکش پر یہ جواب ملا ۔انہوں نے فوراً نواز شریف اور جنرل جاوید اشرف قاضی کو معین قریشی کے انکار سے مطلع کیا۔
اگلے روز 18 جولائی کو سرتاج عزیز کی آنکھ سنگاپور سے آنے والی کال پر کھلی۔ انہیں خوش گوار حیرت ہوئی جب معین قریشی نے یہ منصب سنبھالنے پر آمادگی ظاہر کی۔ ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ آج شام چھ بجے ان کی حلف برداری کی تقریب ہے اور انہیں سنگاپور سے اسلام اباد پہنچانے کا انتظام بھی کریں۔
سرتاج عزیز نے جاوید اشرف قاضی کو نگران وزیراعظم کی دستیابی کی خوشخبری سنانے کے لیے فون کیا تو ان کا جواب ایک نئی تشویش لیے ہوئے تھا۔
ان کی پریشانی کی وجہ جسٹس ریٹائرڈ حلیم تھے ۔ بے نظیر بھٹو نے جسٹس حلیم اور جسٹس عبدالقادر شیخ کے نام نگران وزیراعظم کے لیے تجویز کیے تھے۔ اسی طرح اس دور میں کچھ حلقوں کی طرف سے صاحبزادہ یعقوب علی خان اور جنرل کے ایم عارف کا نام بھی لیا جا رہا تھا۔
جاوید اشرف قاضی نے معین قریشی کے انکار کے بعد جسٹس حلیم کو حلف کے لیے تیار رہنے کا پیغام دینے کو اپنا بندہ ان کی طرف بھیج دیا تھا۔
اب پریشانی کے عالم میں سرتاج عزیز نے فورا نواز شریف کو اطلاع دی کہ وہ معین قریشی کے نام پر اصرار کریں ۔اس لیے کہ معین قریشی کے انکار کو اقرار میں بدلنے والے نواز شریف کے واشنگٹن والے وہی دوست تھے۔
میاں محمد نواز شریف کی مداخلت سے جسٹس حلیم کے بجائے ایک مرتبہ پھر معین قریشی کی حلف برداری کا اہتمام اور انتظار ہونے لگا۔
اس روز چھٹی کی وجہ سے سنگاپور سے چارٹرڈ فلائٹ دستیاب نہ تھی۔ بڑی مشکل سے انہیں براستہ بینکاک ایک فلائٹ کے ذریعے کراچی پہنچایا گیا ۔جہاں سے ایک خصوصی طیارہ انہیں لے کر رات 10 بجے اسلام اباد پہنچا۔
رات گئے معین قریشی جب حلف لینے ایوان صدر پہنچے تو سوائے ایک دو کے وہاں موجود کوئی شخص ان سے آشنا نہ تھا۔
معین قریشی کون تھے؟
پنجاب یونیورسٹی سے اکنامکس میں ماسٹر اور امریکہ کی انڈیانا یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے معین قریشی 18 جولائی کی درمیانی رات ایوان صدر سے حلف اٹھا کر باہر نکلے تو ہر کوئی ان کے بارے میں جاننے کا مشتاق تھا۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں وہ دوسری شخصیت تھے جنہیں بیرون ملک سے بلا کر وزارتِ عظمی کا منصب سونپا گیا۔ اسے قبل امریکہ میں پاکستان کے سفیر محمد علی بوگرا کو واشنگٹن سے لا کر ملک کا وزیراعظم بنایا گیا تھا۔ معین قریشی بھی اس وقت اپنی جرمن نژاد امریکن شہری اہلیہ کے ساتھ وہیں مقیم تھے۔
وہ 1979 تک سینیئر وائس پریزیڈنٹ کے طور پر ورلڈ بینک سے منسلک رہے۔ آئی ایم ایف میں بھی ملازمت کا ایک طویل حصہ گزار چکے تھے۔ نگران وزیراعظم بننے سے قبل پاکستان میں ان کی خدمات کا واحد تجربہ منصوبہ بندی بورڈ کے ڈپٹی چیف کی حیثیت سے خدمات سر انجام دینے کا تھا ۔
معین قریشی 80 دنوں کی نگران وزارت عظمیٰ کے بعد واپس امریکہ چلے گئے تھےجہاں 2016 میں ان کا انتقال ہوا۔

اگرچہ ٹیکنوکریٹ ہونے کی وجہ سے ذاتی حیثیت میں وہ سیاسی معاملات سے دور رہے تھے مگر ان کا خاندان برصغیر میں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے نمایاں مقام رکھتا تھا۔ یوں وہ ایک سیاسی گھرانے کے غیرسیاسی فرد تھے۔
ان کے دادا مولوی عبدالقادر قصوری انڈین نیشنل کانگرس کے پنجاب کے صدر رہ چکے تھے ۔ان کے والد اور چچا تقسیم سے قبل اور بعد سیاست میں مصروف عمل رہے۔
ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت میں وزیر قانون رہنے والے میاں محمود علی قصوری ان کے چچا تھے۔ یوں وہ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیر خارجہ خورشید قصوری کے کزن بھی تھے۔
عمران خان کی نگران وزیر بننے سے معذرت
معین قریشی کی ابتدائی کابینہ چھ ارکان پر مشتمل تھی۔ جو تمام کے تمام غیرسیاسی پس منظر رکھنے والے تھے۔ ان کے نگران وزیر داخلہ کے بارے میں اعجاز الحق کے بیان سے ایک تنازع اٹھ کھڑا ہوا۔
ان پر ضیا الحق کی موت کے بارے میں قائم کمیشن کی سربراہی کے دوران ثبوت ’ضائع‘ کرنے کا الزام لگایا گیا۔ سینیٹ میں اپنی ایک تقریر میں نگران وزیر داخلہ نے اپنے اوپر ہونے والی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ انہیں ان کے رشتہ داروں کے حوالے سے نہ پہچانا جائے بلکہ ان کی انفرادی حیثیت کی بنیاد پر ان کی شناخت ہونی چاہیے۔
ماضی کی نگران کابینہ کا حصہ رہنے والے ریٹائرڈ بیوروکریٹ فتح اللہ خان بندیال موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے والد تھے۔
کابینہ میں توسیع کے اگلے مرحلے میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومتوں کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کو نگران وزیر تجارت کے طور پر شامل کیا گیا۔
