Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دھڑے بندی: حالات کا جبر یا اقتدار کی خواہش؟

ماضی کے کئی نامور سیاست دان اور تاریخی کردار کے حامل سیاسی گروہوں اور پارٹیوں نے اپنا وجود پی ٹی آئی میں ضم کر رکھا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے بطن سے جنم لینے والی استحکام پاکستان پارٹی کا ظہور سیاسی جماعتوں کی تقسیم کی طویل تاریخ کا تازہ باب ہے۔
ماضی قریب کی حکمراں جماعت کے قد آور رہنماؤں کے نئی پارٹی تشکیل دینے سے اس بحث کا آغاز ہو گیا ہے کہ مستقبل قریب کے متوقع انتخابی عمل میں نومولود جماعت کیا نتائج اور اثرات پیدا کر سکتی ہے؟
کیا پی ٹی آئی پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تخریب و تشکیل کے تاریخی تسلسل کا شکار ہوئی ہے یا اس کے زوال کے اسباب و عوامل کچھ اور ہیں؟
اس سوال کا ایک جواب تو یہ ہے کہ خود پی ٹی آئی کی سیاسی قوت میں اضافہ کِن سیاسی گروہوں اور شخصیات کے شامل ہونے سے ہوا ہے۔
حالیہ عرصے میں چودھری پرویز الٰہی کی پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت سے تو قارئین واقف ہیں، مگر بہت کم لوگوں کے علم میں ہو گا کہ ماضی کے کئی نامور سیاست دان اور تاریخی کردار کے حامل سیاسی گروہوں اور پارٹیوں نے اپنا وجود پی ٹی آئی میں ضم کر رکھا ہے۔
پاکستان میں اپوزیشن کی سیاست کا سلیقہ سکھانے والے نوابزادہ نصراللہ خان کی جماعت پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی 1969 میں قائم ہوئی۔ یہ جماعت ضیا الحق اور بینظیر بھٹو دور میں شریک اقتدار بھی رہی۔
نوابزادہ صاحب کے انتقال کے بعد نوابزادہ منصور علی خان کے ہاتھ جماعت کی قیادت آئی۔ انہوں نے 2012 میں اپنی پارٹی پاکستان تحریک انصاف میں ضم کر دی تھی۔
نامور سیاستدان ایئرمارشل ریٹائرڈ اصغر خان نے 1968 میں جسٹس پارٹی تشکیل دی۔ عمران خان کی طرح انہیں افواج اور عدلیہ کے ریٹائرڈ افراد اور سماجی خدمات کی نامور شخصیات کا ساتھ میسر آیا۔
اصغر خان کی جسٹس پارٹی اور دیگر گروہوں کے اتحاد سے پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی تشکیل پائی مگر وہ جلد ہی اس سے الگ ہو گئے۔
انہوں نے 1970 میں تحریک استقلال کے نام سے سوشل ڈیموکریٹک تحریک شروع کی۔ انتخابات میں آزادانہ حیثیت میں ناکامی کے بعد تحریک استقلال کو باقاعدہ سیاسی جماعت کا درجہ دے دیا۔

نوابزادہ نصراللہ خان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے نے 2012 میں اپنی جماعت پی ٹی آئی میں ضم کر دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سابق وزیراعظم نواز شریف سمیت پاکستان کی بہت ساری سیاسی شخصیات تحریک استقلال سے وابستہ رہیں۔
ماضی کی معروف اور مقبول سیاسی جماعت تحریک استقلال بھی تحریک انصاف کا حصہ بن چکی ہے۔ البتہ ایک چھوٹا سا گروہ ابھی تک سابقہ نام سے موجود ہے۔
پی ٹی آئی میں مدغم ہونے والی ایک اور جماعت پاکستان قومی محاذ آزادی بھی ہے۔ یہ سیاسی جماعت گمنام رہی ہے مگر اس کے بانی پاکستان میں طلبہ سیاست اور مظلوم طبقات کے حقوق کی جدوجہد کے حوالے سے معروف رہے ہیں۔
معراج محمد خان کو ذوالفقار علی بھٹو نے اپنا جانشین تک کہا تھا لیکن بھٹو کابینہ سے اختلافات کے باعث علیحدہ ہو کر 1974 میں انہوں نے پاکستان قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی۔
پی ٹی آئی کے تاسیسی رکن کے طور پر انہوں نے اپنی جماعت عمران خان کے حوالے کر دی تھی۔
سابق وزیراعظم محمد خان جونیجو اور نواز شریف میں مسلم لیگ کی قیادت پر اختلافات سے مسلم لیگ کا جونیجو گروپ وجود میں آیا۔ ان کے انتقال کے بعد اس کی قیادت حامد ناصر چٹھہ کے ہاتھ آئی تو یہ جماعت چٹھہ لیگ کے نام سے معروف ہوئی۔ اس نے 1993 میں 18 نشستوں کے ساتھ پنجاب میں پیپلز پارٹی سے مل کر حکومت بھی بنائی۔
حامد ناصر چٹھہ اور مرحوم محمد خان جونیجو کی صاحبزادی فضہ جونیجو نے اپنے سیاسی سفر کے لیے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا اور اب بھی اس کا حصہ ہیں۔ سابق وزیراعلٰی پنجاب میاں منظور وٹو بھی ماضی میں تحریک انصاف کا حصہ بن چکے ہیں۔
پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر موجود دیگر چھوٹی بڑی تمام جماعتیں ماضی میں اندرونی تقسیم کے عمل سے گزر چکی ہیں۔

معراج محمد خان نے ذوالفقار علی بھٹو سے علیحدہ ہو کر 1974 میں پاکستان قومی محاذ آزادی کی بنیاد رکھی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)

مقبول سیاسی پارٹیوں سے دیگر جماعتوں کا جنم سب سے زیادہ مارشل لا ادوار میں ہوا۔ اس کے ساتھ مذہبی اور ترقی پسند پارٹیوں میں الگ دھڑے بننے کی وجوہات نظریات سے زیادہ حکمت عملی کے اختلافات اور شخصیات کے ٹکراؤ رہے ہیں۔

سیاسی تقسیم کی 100 سالہ تاریخ   

مسلم لیگ جتنی قدیم جماعت ہے اس کی تقسیم در تقسیم کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے۔
20 ویں صدی کی تیسری دہائی میں یہ جماعت جناح لیگ اور شفیع لیگ میں منقسم رہی۔ علامہ اقبال شفیع لیگ کا حصہ تھے۔
90 کی دہائی میں قائم ہونے والی مسلم لیگ ن البتہ زیادہ سخت جان ثابت ہوئی ہے اور اب چوتھی مرتبہ برسراقتدار ہے۔ اس سے الگ ہونے والی ق لیگ 2002 میں کنگز پارٹی کے طور پر ابھری مگر اب سکڑتے سمٹتے اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، جبکہ پیر پگاڑا کا سیاسی گروپ ان کے مریدین تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
پنجاب کے سابق وزیراعلٰی نواب افتخار ممدوٹ نے 1950 میں جناح عوامی مسلم لیگ بنائی تو یہ پاکستان بنانے والی جماعت سے الگ ہونے والا پہلا گروپ تھا۔
سابق وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے تین باغی دھڑوں کو ملا کر 1952 میں جناح عوامی مسلم لیگ کو ملک گیر جماعت بنایا۔ مشرقی پاکستان کے عبدالحمید بھاشانی سے اختلافات کی وجہ سے چند برسوں میں جناح عوامی مسلم لیگ عوامی لیگ بن گئی۔ جو آنے والے دور میں مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد بنگلہ دیش کی بانی جماعت قرار پائی۔
مسلم لیگ کی تاریخ میں بدترین تقسیم 1970 کے انتخابات میں دیکھنے کو ملی۔ کونسل مسلم لیگ، کنونشن لیگ اور قیوم لیگ کے ناموں سے تین جماعتیں میدان میں موجود تھیں۔ خان عبدالقیوم خان کا گروپ زیادہ نشستیں جیت کر پیپلز پارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہو گیا۔

اصغر خان کی تحریک استقلال بھی تحریک انصاف کا حصہ بن چکی ہے۔ (فوٹو: سوشل میڈیا)

پیر صاحب پگاڑا نے پہلے بھٹو پھر ضیا دور میں تینوں گروپوں کو مجتمع کر کے متحدہ مسلم لیگ قائم کی۔
آنے والے دور میں پہلے محمد خان جونیجو اور پھر میاں محمد نواز شریف برسر اقتدار آئے تو انہوں نے اس جماعت کی قیادت اپنے ہاتھ لے لی۔

پیپلز پارٹی کے باغی وزیراعظم کیوں نہ بنے؟

الگ سیاسی جماعتوں کے ظہور پذیر ہونے کی ایک وجہ اقتدار کے حصول کے لیے سازگار ماحول کا ملنا یا حکومت کے لیے مطلوبہ تعداد پوری کرنے کی ساز باز بھی ہے۔
مسلم لیگ میں مرکزی جماعت سے الگ ہو کر وزیراعظم بننے والوں میں میاں نواز شریف اور چوہدری شجاعت کی مثال دی جاتی ہے۔
مگر اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہونے والے زیادہ بدنصیب واقع ہوئے ہیں۔ سوائے ملک معراج خالد کے جو محض نگراں وزیراعظم بن سکے۔
غلام مصطفیٰ جتوئی نے 1986 میں پیپلز پارٹی کے منحرفین کو جمع کرکے نیشنل پیپلز پارٹی قائم کی۔ یہ حیرت انگیز سیاسی امر ہے کہ وہ تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان بنتے بنتے رہ گئے۔
ضیا الحق کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ضیا الحق نے 1980 میں صوبہ سندھ  سے سویلین وزیراعظم بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان کی نگاہِ انتخاب غلام مصطفیٰ جتوئی پر پڑی، جن کی مارشل لا حکام کے ساتھ تفصیلات طے کرنے کے لیے متعدد ملاقاتیں بھی ہوئیں۔‘
’مگر جتوئی نے جب دبئی میں غلام مصطفیٰ کھر سے ملاقات کی تو ضیا الحق ان سے برگشتہ ہو کر اپنی سکیم سے پیچھے ہٹ گئے۔‘
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کے خلاف 1989 میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی۔ اس وقت جتوئی کو متحدہ اپوزیشن جماعتوں نے کامیابی کی صورت میں وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ مگر دوسری بار بھی جتوئی صاحب کی قسمت میں وزارت عظمٰی کی کرسی نہ تھی۔

1990 میں آئی جے آئی کی کامیابی کے بعد غلام مصطفیٰ جتوئی کی جگہ نواز شریف وزیراعظم بنے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تیسری بار 1990 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد آئی جی آئی کے سربراہ کے طور پر وزارت عظمٰی انہیں چھو کر گزر گئی اور نواز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا۔
پیپلز پارٹی سے علیحدہ ہونے والے سابق وزیراعلٰی پنجاب حنیف رامے نے مساوات پارٹی بنا کر قسمت آزمائی کی۔ لیکن وہ اور غلام مصطفی کھر نیشنل پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے بعد اپنی پرانی پارٹی کو واپس لوٹ گے۔
بھٹو کے وزیر اطلاعات کوثر نیازی کی پروگریسیو پیپلز پارٹی ان کی ذات تک محدود رہی۔
نامور قانون دان اعتزاز احسن کا ان دنوں پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلق برائے نام رہ گیا ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ بھٹو حکومت میں صوبائی وزیر بننے والے اعتزاز احسن نے 1977 میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی کے بعد وہ پرانی جماعت میں لوٹ آئے۔
پیپلز پارٹی سے علیحدگی کے بعد وزارتوں اور حکومت کا حصہ بننے کے حوالے سے پیپلز پارٹی پیٹریاٹ گروپ کامیاب سمجھا جاتا ہے۔ مشرف دور میں شریک اقتدار میں رہ کر کچھ رہنما گھر واپس لوٹ آئے جبکہ کچھ گمنامی یا دیگر جماعتوں کی نذر ہو گئے۔
2002 کے انتخابات کے بعد مخدوم امین فہیم کی جنرل مشرف سے ملاقات کو بھی کچھ لوگ غلام مصطفیٰ جتوئی کی ضیا الحق کے ساتھ وزارت عظمٰی کے لیے ہونے والی ملاقات جیسا قرار دیتے ہیں۔

ترقی پسند جماعتوں کا مخمصہ  

پاکستان میں بائیں بازو کی جماعتوں نے جاگیرداری اور استحصال کے خلاف آواز بلند کرنے کے نعرے پر سیاست میں حصہ لیا۔ مگر ان کی اندرونی تقسیم، حکمت عملی میں اختلافات اور شخصی ٹکراؤ نے انہیں سماجی اور سیاسی طور پر بے اثر بنا دیا۔

کانگریس سے مسلم لیگ میں آنے والے میاں افتخار الدین نے 1952 میں آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔ (فوٹو: آرکائیوز آف پاکستان)

کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان تقسیم کے بعد کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے وجود سے نکلی۔ یہ جماعت راولپنڈی سازش کیس اور خارجہ پالیسی پر تنقید کے بعد زِیرزمین چلی گئی۔
1954 میں اس پر پابندی لگی تو اس کے رہنما اور کارکن آزاد پاکستان پارٹی کا حصہ بن گئے۔
معروف محقق کے کے عزیز کی کتاب ’پارٹی پالیٹکس ان پاکستان‘ کے مطابق کانگریس سے مسلم لیگ میں آنے والے میاں افتخار الدین نے 1952 میں آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد ڈالی تھی۔
بابائے سوشلزم شیخ رشید بھی اس کے ایک دھڑے کے سربراہ رہے۔
1956 میں بائیں بازو کی دیگر جماعتوں اور گروہوں نے مل کر پاکستان نیشنل پارٹی قائم کی۔
اس دور کے بائیں بازو کے قد آور سیاستدانوں نے 1957 میں مختلف جماعتوں اور گروپوں کو اکٹھا کر کے نیشنل عوامی پارٹی قائم کی، جو بعد میں بھاشانی اور ولی خان گروپوں میں بٹ گئی۔
نیپ اس حوالے سے منفرد رہی کہ دیگر ترقی پسند جماعتوں کے برعکس اس نے 1970 کے انتخابات کے بعد پاکستان کے دو صوبوں میں مختصر عرصے کے لیے حکومت قائم کی۔
بھٹو دور میں نیشنل عوامی پارٹی پابندی کی نذر ہوئی تو نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اس کی جگہ لے لی۔
آج ترقی پسند حلقوں میں عوامی ورکرز پارٹی، مزدور کسان پارٹی اور حقوق خلق موومنٹ کے نام سے مختلف گروہ سرگرم ہیں۔

قوم پرست اور مذہبی جماعتوں کا جنم

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سے ہی 1986 میں عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے ولی خان نے علیحدہ جماعت بنائی۔ اسی طرح معروف قوم پرست سیاست دان محمود خان اچکزئی کے والد عبدالصمد اچکزئی نے بھی نیپ سے علیحدہ ہو کر 1970 میں پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے سیاسی جماعت بنائی تھی، جسے ان کے بیٹے نے 1989 میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا موجودہ نام دیا۔

پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ان کی زندگی میں ہی سیاسی طور پر دم توڑ گئی۔ (فوٹو: روئٹرز)

بلوچستان کے قوم پرست سیاستدان غوث بخش بزنجو بھی پاکستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور پاکستان نیشنل پارٹی میں شامل رہے۔ 80 کی دہائی میں انہوں نے اپنی پرانی پارٹی کے نام پر پاکستان نیشنل پارٹی قائم کر لی جو بعد میں تقسیم کے مراحل سے گزر کر حاصل بزنجو مرحوم کی سربراہی میں نیشنل پارٹی کہلائی۔
بلوچستان کے سابق گورنر نواب اکبر بگٹی نیپ کا باقاعدہ حصہ نہیں رہے مگر اس کے قائدین سے قربت کی وجہ سے وہ سیاسی عمل کا حصہ رہے۔
ان کی قائم کردہ جماعت جمہوری وطن پارٹی کی قیادت ان کے پوتے کے ہاتھ میں ہے ۔
مذہبی سیاسی جماعتوں میں جماعت اسلامی سب سے قدیم جماعت ہے۔ اس کے طلبا ونگ سے وابستہ رہنے والے لاتعداد رہنماؤں نے اس کی تنظیمی ساخت اور سخت گیر طریقہ کار کی وجہ سے الگ ہو کر دوسری سیاسی جماعتوں میں نمایاں عہدے حاصل کیے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی متحدہ ہندوستان کی جمعیت علمائے ہند کی ایک شاخ ہے۔ ان کے والد مفتی محمود 1962 میں ممبر اسمبلی بنے تو جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی حیثیت کا ظہور ہوا۔ انہیں اپنی جماعت میں موجود عبداللہ درخواستی کی مزاحمت کا سامنا رہا۔ اسی طرح جمیعت علمائے اسلام کا ایک گروپ سمیع الحق کی قیادت میں الگ ہو کر آئی جے آئی کے ساتھ شریک اقتدار رہا۔
جمیعت علمائے پاکستان شاہ احمد نورانی کے دور میں کراچی میں اثر و نفوذ رکھتی تھی۔ بعد میں عبدالستار نیازی اور حاجی حنیف طیب کے گروپوں کے الگ ہونے سے سیاسی طور پر کمزور ہو گئی۔
پاکستان کی تاریخ میں مذہبی بنیادوں پر ایک اور جماعت پاکستان نیشنل کانگریس کے نام سے بھی قائم ہوئی۔ مشرقی پاکستان کی ہندو کمیٹی نے تقسیم کے بعد آل انڈیا نیشنل کانگریس کی جگہ پاکستان نیشنل کانگریس قائم کی۔ اس جماعت کو پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں بھی نمائندگی حاصل رہی۔

سابق صدر فاروق لغاری دوسرے بیوروکریٹ تھے جنہوں نے 14 اگست 1998 کو ملت پارٹی کی بنیاد رکھی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جرنیل، بیوروکریٹ اور سیاسی جماعتیں

سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ جرنیلوں نے بھی سیاسی میدان میں طبع آزمائی کی۔ پرویز مشرف اور ایوب خان نے اس مقصد کے لیے مسلم لیگ کا انتخاب کیا۔ پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ ان کی زندگی میں ہی سیاسی طور پر دم توڑ گئی۔
سابق فوجی حکمران ایوب خان نے 1963 میں مسلم لیگ کے ایک آنے کا ممبر بن کر باقاعدہ شمولیت اختیار کی۔ مسلم لیگ کے سابق صدر چوہدری خلیق الزماں کے کہنے پر وہ کنونشن لیگ کے سربراہ بھی بنے۔
اقتدار سے رخصتی کے بعد کنونشن لیگ نے انہیں اور انہوں نے کنونشن لیگ کو فراموش کر دیا۔
تیسرے آرمی چیف جنہوں نے سیاسی جماعت کے ذریعے انتخابی عمل کا حصہ بننے کی کوشش کی وہ اسلم بیگ ہیں۔ انہوں نے 1996 میں عوامی قیادت پارٹی بنائی۔
اسلم بیگ نے پہلے جونیجو لیگ کے ساتھ پرانے مسلم لیگیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ بعد ازاں 1996 میں پیپلز پارٹی کے ساتھ انتخابی اتحاد تشکیل دینے میں ناکام ہوئے تو انتخابی سیاست سے تائب ہو گئے۔
بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ راولپنڈی سازش کیس کے اہم کردار جنرل اکبر خان نے فوج سے نکالے جانے کے بعد ملت پارٹی کے نام سے جماعت قائم کی تھی۔ اکبر خان پیپلز پارٹی میں شمولیت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے نیشنل سکیورٹی کے مشیر بھی رہے۔
اسی طرح مشرقی پاکستان کے سابق گورنر جنرل اعظم خان نے بھی جناح لیگ کے نام سے اپنی پارٹی بنائی۔ وہ کچھ عرصہ تک ایئر مارشل اصغر خان کی جسٹس پارٹی کا بھی حصہ رہے۔

بھٹو حکومت میں صوبائی وزیر بننے والے اعتزاز احسن نے 1977 میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جنرل ٹکا خان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے جبکہ ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل فضل حق سرحد مسلم لیگ کے صدر بھی بن گئے تھے۔ بلوچستان کے سابق گورنر عبدالقادر بلوچ کچھ عرصہ مسلم لیگ ن میں گزارنے کے بعد اس سے اپنا راستہ جدا کر چکے ہیں۔
پاکستان میں غلام محمد اور سکندر مرزا کے گورنر جنرل بننے سے بیوروکریسی کو اقتدار کی چاٹ لگی۔ ہماری سیاسی تاریخ میں دو بیوروکریٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنی سیاسی جماعتیں قائم کیں۔ ان میں سے ایک سابق وزیراعظم اور دوسرے صدر پاکستان رہ چکے تھے۔
چوہدری محمد علی نے 1956 میں وزیراعظم کے طور پر اقتدار سے بے دخلی کے بعد پہلے ’استحکام پاکستان تحریک‘ چلائی اور بعد میں پاکستان نظام اسلام پارٹی کے بانی صدر بنے۔ ان کی زندگی میں ہی یہ جماعت نوابزادہ نصراللہ خان کی پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی میں ضم ہو گئی۔
سابق صدر فاروق لغاری دوسرے بیوروکریٹ تھے جنہوں نے 14 اگست 1998 کو ملت پارٹی کی بنیاد رکھی۔ بعد میں نیشنل الائنس کے نام سے 2002 میں اقدار کا حصہ رہے۔ یہ جماعت بعد میں مسلم لیگ ق کی نظر ہو گئی۔
پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ میں حالات کا جبر اور اقتدار کی ہوس دونوں شامل ہیں۔
ملک میں طویل عرصے تک دو جماعتی نظام قائم رہا۔ پاکستان تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے پر یہ تین جماعتی نظام میں ڈھل گیا۔
اب پی ٹی آئی کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد اقتدار کے حصہ داروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے یا ماضی کا دو جماعتی نظام لوٹ آتا ہے، اس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں ہی ہو گا۔

شیئر: