کرکٹ میں متنازع آؤٹ، ’آپ نے بے ایمانی کی، نظروں سے گرنا اسی کو کہتے ہیں‘
کرکٹ میں متنازع آؤٹ، ’آپ نے بے ایمانی کی، نظروں سے گرنا اسی کو کہتے ہیں‘
بدھ 19 جولائی 2023 5:31
محمود الحسن -لاہور
کرکٹ قوانین کی رو سے برسٹو آؤٹ تھے، لیکن انہیں بہت سے لوگوں نے کھیل کی روح کے منافی جانا (فوٹو: کرک انفو)
انگلینڈ میں جاری ایشیز سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میں ایلکس کیری کا جونی برسٹو کو سٹمپ کرنا باعثِ نزاع بن گیا۔ یہ وہ روایتی سٹمپ نہیں تھا جو ہم کرکٹ میں عام طور پر دیکھتے رہتے ہیں، یہاں بلے باز کوئی شاٹ کھیلنے نہیں جا رہا تھا، بس اس سے یہ چُوک ہوئی کہ گیند ڈیڈ ہونے سے پہلے کریز چھوڑ کر چل نکلے، جس کا فائدہ آسٹریلیوی وکٹ کیپر نے اٹھایا۔
کرکٹ قوانین کی رو سے برسٹو آؤٹ تھے، لیکن اسے بہت سے لوگوں نے کھیل کی روح کے منافی جانا۔ میزبان ٹیم کے حامی اس پر برافروختہ ہوئے۔ میڈیا نے واویلا مچایا۔ لارڈز کے لانگ روم میں ایم سی سی کے اراکین نے مہمان ٹیم کے کھلاڑیوں پر آوازے کسے۔ تین اراکین کی رکنیت معطل ہوئی۔
اس قضیے کے بعد سپورٹس مین سپرٹ کی تکرارِ مسلسل سے ماضی کے کتنے ہی واقعات ذہن میں آئے جب آسٹریلیا اور انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے کرکٹ پر بٹہ لگایا۔ ان دنوں آسٹریلوی ٹیم کا طرزِ عمل خبروں کا موضوع ہے تو ٹیسٹ اور ون ڈے سے ایک ایک مثال چھانٹ کر بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیری اور آسٹریلوی کپتان پیٹ کمنز تو کسی شمار قطار میں نہیں۔
سپورٹس مین سپرٹ کے پلڑے میں سرڈان بریڈ مین اور گریگ چیپل کو تولا جائے تو وہ بھی ہلکے نکلیں۔ بات پہلے دنیا کے عظیم ترین بلے باز ڈان بریڈمین کی کر لیتے ہیں۔
یہ 1946 کی بات ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد روایتی حریف پہلی دفعہ ایشیز کھیل رہے تھے۔ جنگ کے باعث تعطل سے پہلے 30 کی دہائی میں دنیائے کرکٹ میں بریڈمین کا راج تھا۔ ٹیسٹ کرکٹ سے آٹھ سال کی دوری اور بڑھتی ہوئی عمر کی وجہ سے ان کے کھیل میں پہلے سا بانکپن نہ رہا۔ وہ فٹنس کے مسائل سے دوچار تھے۔
بینائی ان کی متاثر ہوئی۔ کندھے کی تکلیف الگ۔ اس لیے ٹیسٹ سیریز سے پہلے اخبارات میں ان کی ٹیم میں شمولیت کا معاملہ مسلسل زیرِ بحث رہا۔ خیر، بریڈمین نے انگلیڈ کے خلاف کھیلنے کا فیصلہ کیا۔ ڈینس کامپٹن جس نے دوسری جنگ عظیم سے پہلے 1938 میں ایشیز سیریز میں حصہ لیا تھا انہیں 1946 میں بریڈمین کو دیکھ کر جھٹکا لگا۔
انگلینڈ کے بعض کھلاڑیوں کا خیال تھا کہ بریڈمین کو کرکٹ پچ کے بجائے نرسنگ ہوم جانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر نے بریڈمین کو برسبن میں پہلا ٹیسٹ نہ کھیلنے کا مشورہ دیا جسے انہوں نے نظرانداز کر دیا۔
اس میچ میں ان کی کھلی ’بے ایمانی‘ کے بارے میں، میں نے سب سے پہلے ای ایم ویلنگز کی کتاب ’وینٹج کرکٹرز‘ میں پڑھا۔ اچھا، اب یہ کوئی معمولی کتاب نہیں، اسے معروف کرکٹ رائٹر سٹیون لنچ نے کرکٹ کے بارے میں اپنی پسندیدہ گیارہ کتابوں میں شامل کیا ہے۔
برسبن ٹیسٹ میں بریڈمین بہت دباؤ میں تھے۔ ان کی اننگز کا آغاز پُراعتماد نہیں تھا۔ گیند ان کے پلے نہیں پڑ رہی تھی۔ پہلے 40 منٹ میں وہ مشکل سے سات رنز بنا پائے۔ یہ سب ان کی کلاس سے فروتر تھا۔ 28 کے سکور پر بل ووس کی گیند پر جیک اکین نے دوسری سلپ میں کندھے کی اونچائی کے برابر ان کا کیچ پکڑا، لیکن پویلین کا رخ کرنے کے بجائے بریڈمین ڈھٹائی سے وکٹ پر کھڑے رہے اور امپائر نے بھی انگلی اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ کوئی حیرانی سی حیرانی تھی۔
بریڈمین کا خیال تھا کہ یہ بمپ بال تھی اور فیلڈر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے گیند نے زمین کو چھوا تھا۔ ای ایم ویلنگز کے خیال میں یہ بالکل ناممکن بات تھی کیونکہ سکینڈ سلپ میں کندھے کے برابر اونچائی پر گیند بلے کے اوپری کنارے سے چھونے پر ہی جاسکتی ہے، لہٰذا اس کے زمین سے لگنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا۔
اس واقعے کے بارے میں مارٹن ولیم سن کے مضمون میں بڑی کارآمد اور دلچسپ معلومات ملتی ہیں۔ انگلنیڈ کے کھلاڑیوں کو بریڈمین کے آوٹ ہونے کا اتنا قوی یقین تھا کہ انہوں نے اپیل نہیں کی، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ بریڈمین ٹس سے مس نہیں ہو رہے تو وہ امپائر کی طرف متوجہ ہوئے جس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
انگلینڈ کے نائب کپتان نارمن یارڈلے، جو گلی میں فیلڈنگ کررہے تھے، ان کے خیال میں بھی گیند بریڈمین کے بلے کے اوپری کنارے سے چھو کر سیدھی فیلڈر کے ہاتھ میں گئی اور جب انہیں ناٹ آوٹ قرار دیا گیا تو انگلینڈ کے کھلاڑی حیرت زدہ رہ گئے۔
ریڈیو کمنٹیٹر کلف کیری نے یہ تک کہہ دیاتھا :Bradman is out ... caught Ikin bowled Voce 28 )۔ وہ بعد میں اپنے مؤقف پر قائم رہے اور لکھا کہ بریڈمین کے وکٹ نہ چھوڑنے پر انہیں حیرت ہوئی۔
یہ کیتھ ملر کا پہلا ٹیسٹ میچ تھا۔ ایکن کے ہاتھوں میں گیند محفوظ ہوتے دیکھ کر وہ فوری طور پر سیٹ سے اٹھے، گلوز اور بلا ہاتھ میں تھامے، دھڑکتے دل کے ساتھ میدان میں اترنے کی تیاری پکڑی، لیکن پھر دیکھا کہ بریڈمین تو وکٹ سے ہل نہیں رہے تو وہ دوبارہ اپنی جگہ پر بیٹھ گئے۔
اخبارات نے عظیم آسٹریلیوی بلے باز کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا۔ ڈیلی ایکسپریس میں ہیریلڈ ڈیل نے لکھا کہ پہلے دن کے اختتام پر بریڈ مین نے دو اننگز کھیلیں۔ پہلی میں انہوں نے 28 رنر بنائے۔
بریڈمین نے اس ’روندی‘ سے پورا فائدہ اٹھایا اور187رنز بنائے۔ برسبن میں انگلینڈ کے خلاف پہلی سنچری بنائی۔ ہیسٹ کے ساتھ تیسری وکٹ کی شراکت میں 276 رنز جوڑے۔ آسٹریلیا نے اپنے ملک میں سب سے زیادہ 645 رنز کا ریکارڈ بنایا۔ ویلنگز اور ولیم سن کی دانست میں بریڈ مین28 رنز پر آؤٹ ہو جاتے تو غالباً ان کا ٹیسٹ کرئیر انجام کو پہنچ جاتا۔ اس سیریز میں آسٹریلیوی امپائروں نے کئی اور موقعوں پر بھی غلط فیصلے دیے۔ چوتھے ٹیسٹ میں امپائر بریڈمین کاصاف ایل بی ڈبلیو ’ پی‘ گیا۔
ویلنگز نے اس بات پر حیرت ظاہر کی ہے کہ آسٹریلیا میں یہ بدترین امپائرنگ اس مہمان ٹیم کے ساتھ ہو رہی تھی جس کا سیریز جیتنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا کیونکہ میزبان ٹیم ہر شعبے میں اس سے آگے تھی۔
بریڈ مین کے بعد اب ہم گریگ چیپل کے ’کارنامے‘ پر بات کرتے ہیں جس کا تذکرہ 42 سال گزرنے پر بھی پڑھنے سننے کو ملتا رہتا ہے۔
فروری 1981: آسٹریلیا کے خلاف نیوزی لینڈ کو آخری گیند پر میچ ٹائی کرنے کے لیے چھ رنز چاہیے تھے، ایسے میں گریگ چیپل نے بولر سے جو خیر سے اس کا بھائی ٹریور چیپل تھا کہا کہ وہ انڈر آرم گیند کرے تاکہ گیند کے باؤنڈری لائن سے باہر جانے کا امکان ہی نہ رہے۔
چھوٹا بھائی صرف بڑے بھائی کی فرمانبرداری اور کپتان کے حکم کی تعمیل ہی نہیں کر رہا تھا دل سے بھی اس آئیڈیا کے ساتھ تھا۔ اس کی گیند پر برین میکچین نے احتجاج یوں ریکارڈ کروایا کہ گیند پر شاٹ کھیلنے کی کوشش ہی نہیں کی بس اسے روکنے پر اکتفا کیا اور پھر غصے میں بلا ہوا میں اچھال دیا۔
امپائر نے آخری گیند سے پہلے بولر کی منشا سے میکچین کو آگاہ کیا تو اسے یقین ہی نہیں آیا۔ ادھر دو بھائی تو میدان میں یہ گُل کھلا رہے تھے اور تیسرا ایان چیپل کمنٹری باکس میں گریگ چیپل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہا تھا کہ ’نہیں گریگ نہیں تم ایسا نہیں کرسکتے۔‘
وکٹ کیپر روڈنی مارش بھی کپتان کی سوچ سے متفق نہیں تھے۔ نیوزی لینڈ والے پہلے ہی چیپل پر تپے بیٹھے تھے کیونکہ امپائر نے انہیں کیچ آؤٹ نہیں دیا تھا، جبکہ فیلڈر نے ان کا ’کلینٔ‘ کیچ لیا تھا۔
چیپل اور ٹریور کے سان گمان میں بھی نہیں تھا کہ انڈر آرم گیند سے اس قدر رسوائی ان کے حصے میں آئے گی۔ غیر تو غیر اپنے بھی اس کی مذمت کریں گے۔ کیتھ ملر نے کہا کہ ون ڈے کرکٹ مر گئی جس کے ساتھ گریگ چیپل کو بھی دفن کر دینا چاہیے۔
بریڈمین نے آسٹریلیا کے ہر قیمت پر فتح یاب ہونے کے اندازِ نظر پر افسوس کا اظہار کیا۔ نیوزی لینڈ کے وزیراعظم نے اسے قبیح اور بزدلانہ فعل قرار دیا تو ان کے آسٹریلیوی ہم منصب نے اسے کرکٹ کی روایات سے برعکس ٹھہرایا۔
گریک چیپل کو اپنے ’کارنامے‘ کی سنگینی کا احساس کسی مبصر کے تبصرے، کسی کھلاڑی کی تنقید نے نہیں بلکہ ایک چھوٹی بچی نے دلایا جو بھاگتی ہوئی ان کے پاس آئی اور آستین کھینچتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے بے ایمانی کی ہے۔‘ نظروں سے گرنا اسی کو کہتے ہیں۔ اور زندگی میں اس صورت حال کا سامنا ہر اس شخص کو کرنا پڑتا ہے جو کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتا ہے۔