ن لیگ کو پارٹی چھوڑ جانے والے امیدواروں کی واپسی کی ضرورت کیوں؟
ن لیگ کو پارٹی چھوڑ جانے والے امیدواروں کی واپسی کی ضرورت کیوں؟
منگل 25 جولائی 2023 5:29
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی واپسی کے بارے میں غیریقینی صورتحال برقرار ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم شہباز شریف نے اتوار کو ایک بیان میں کہا کہ مسلم لیگ نواز چھوڑ جانے والے واپس آنا چاہیں تو انہیں خوش آمدید کہیں گے۔
ان کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب مسلم لیگ ن اپنی حکومت کی مدت پوری کر کے الیکشن میں جانے کی تیاریاں کر رہی ہے اور ان کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان تحریک انصاف 9 مئی کے واقعات کے بعد مشکلات کا شکار ہے۔
سیاسی پنڈت یہ سمجھتے ہیں کہ انتخابات میں تحریک انصاف کو کھل کر کھیلنے کا موقع نہیں ملے گا اور نواز لیگ کو زیادہ تر میدان کھلا ہی ملے گا۔ اس کے باوجود اگر چار مرتبہ کی حکمران جماعت انتخابات میں پارٹی چھوڑ جانے والے امیدواروں کی واپسی کی خواہاں ہے اور انتخابات جیتنے کے لیے ان کی مدد کی متلاشی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وزیراعظم اور ن لیگ کے صدر انتخابات کے متوقع نتائج کے بارے میں تذبذب کا شکار ہیں۔
’نواز لیگ کو الیکٹیبلز کی ضرورت ہے‘
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کے خیال میں وزیراعظم کے اس بیان کا مطلب ہے کہ مسلم لیگ نواز کو اب بھی کئی حلقوں میں الیکٹیبلز کی ضرورت ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’شہباز شریف اپنے بیان کے ذریعے ان الیکٹیبلز کو واپسی کی دعوت دے رہے تھے جو ماضی میں نواز لیگ کو چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گیے تھے اور ان کی آج بھی ان کو ضرورت ہے۔‘
’نواز لیگ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں اور اس کے علاوہ مختلف سطح پر امیدواروں بالخصوص الیکٹیبلز کے پینلز تشکیل دینے کی خواہاں ہے اور اس کے لیے وہ ان لوگوں کو واپس بلانا چاہتے ہیں جو ان کے لیے انتخابات میں کامیابی کے ضامن ہو سکتے ہیں۔‘
سادہ اکثریت کے حصول کی منصوبہ بندی
اسی طرح کے خیالات سینیئر صحافی اور شریف برادران سے قربت کے لیے جانے والے تجزیہ کار سلمان غنی کے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ ’مسلم لیگ نواز قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت لینے کی خواہاں ہے اور اس کے لیے اسے جنوبی پنجاب میں الیکٹیبلز کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس وجہ سے یہ ان لوگوں کی راہ دیکھ رہے ہیں جو گزشتہ دور میں انہیں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں چلے گیے تھے۔‘
سلمان غنی کے مطابق مسلم لیگ نواز نے ایسے الیکٹیبلز کو ہدف بنایا ہوا ہے جن کے پاس 20 سے 30 ہزار ذاتی ووٹ ہیں اور وہ جیتنے والی جماعت کے حق میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔
مخالف امیدواروں کو وقت سے پہلے نیوٹرلائز کرنے کی کوشش
حالیہ سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق شہباز شریف کی اس پیشکش کے پس پردہ ایک مقصد مظبوط مخالف امیدواروں کو وقت سے پہلے ہی ’نیوٹرلائز‘ کرنا بھی ہے۔
’ان کے دو تین بڑے مسائل ہیں۔ ایک طرف تو ان کے پاس بیانیہ نہیں ہے، دوسرا ان کی کارکردگی نہیں ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حلقوں کی سیاست میں اب قومی سیاست کا اثر بہت بڑھ گیا ہے۔ اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے امیدواروں کو رام کر لیا جائے۔‘
’ان کو سینیٹر، اراکین صوبائی اسمبلی یا اضلاع میں ڈسٹرکٹ چیئرمین بننے کی ترغیب دے کر ساتھ ملا لیں تاکہ جب وہ الیکشن میں جائیں تو تحریک انصاف کے پاس کوئی مضبوط امیدوار نہ بچے۔‘
’وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہر حلقے میں ان کے پاس بہترین سے بہترین امیدوار ہو جس کا مقامی اثر و رسوخ ہو۔ اور کوئی بھی ایسا امیدوار جو دوسری جماعت میں ہو اور وہ ان کے پاس آنا چاہے تو وہ اسے اچھی پیشکش دینے کے لیے تیار ہیں تا کہ وہ اگلے الیکشن میں جیتنے کا کوئی موقع نہ ضائع کریں۔‘
فیصل آباد کو نواز لیگ کا گڑھ بنانے کی خواہش
حلقوں کی سیاست پر گہری نگاہ رکھنے والے تجزیہ کار احمد اعجاز کے مطابق شہباز شریف نے پارٹی چھوڑ کے جانے والوں کو واپسی کی دعوت فیصل آباد میں دی ہے اور اس کا پس منظر بھی فیصل آباد کی سیاسی صورتحال ہی ہے۔
’2018 کے انتخابات میں اس جماعت کو فیصل آباد میں کافی بڑا دھچکا لگا تھا۔ فیصل آباد کی قومی اسمبلی کی 10 نشستوں میں سے محض دو نشستیں مسلم لیگ ن نکال سکی تھی۔‘
’الیکشن سے قبل ڈاکٹر نثار جٹ اور رضا نصراللہ گھمن جیسے اہم امیدواروں نے پارٹی سے راہیں جدا کرلیں تھیں، رضا نصراللہ گھمن نے سیٹ بھی جیت لی تھی۔ اسی طرح عاصم نذیر جنہوں نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تھا اور اِن کے بارے یہ تأثر تھا کہ جیت کر مسلم لیگ ن کو جوائن کریں گے، تو ایسا نہیں ہوا تھا۔‘
’اب چونکہ فیصل آباد کا سیاسی منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے، 2018 میں پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے والے یا الیکشن جیت کر پی ٹی آئی کا حصہ بننے والوں میں سے چند ایک پی ٹی آئی سے اپنی راہیں جدا کر چکے ہیں جن میں راجہ ریاض، نواب شیر وسیر، عاصم نذیر، فیض اللہ کموکا، رضا نصراللہ گھمن قابلِ ذکر ہیں۔ میرا خیال ہے کہ وزیرِاعظم فیصل آباد کی اس سیاسی قیادت سے مخاطب تھے جو کبھی مسلم لیگ ن کا حصہ تھی۔‘
احمد اعجاز کے مطابق مسلم لیگ ن کے لیے فیصل آباد کی سیاست بہت اہمیت کی حامل ہے۔
’یہاں سے پی ایم ایل این نے 2013 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی 10 کی دس نشستیں حاصل کی تھیں، یعنی کلین سویپ کیا تھا جبکہ 2018 کےالیکشن میں یہ وہاں سے صرف دو سیٹیں ہی نکال سکی تھی۔‘