Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہباز شریف اور ان کا خاندان مقدمات سے کیسے بری ہو رہا ہے؟

شہناز شریف کے خلاف سب سے پہلا مقدمہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی پراجیکٹ میں کرپشن کا تھا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف جب گزشتہ برس اقتدار میں آئے تو ان پر منی لانڈرنگ، اختیارات کے ناجائز استعمال اور دولت کے ذرائع آمدن سے مطابقت نہ رکھنے کے مقدمات چل رہے تھے۔
یہ مقدمے بیک وقت قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں زیر سماعت تھے جب کہ نیب کے دو مقدمات میں ان پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد ٹرائل کا آغاز بھی ہو چکا تھا۔
صرف یہی نہیں بلکہ ان کے دونوں بیٹے حمزہ شہباز اور سلمان شہباز بھی ان کے ساتھ شریک ملزمان کی فہرست میں شامل تھے۔
جب گزشتہ برس اپریل میں شہباز شریف نے بطور وزیراعظم حلف اٹھایا تو وہ ایک ملزم کی حیثیت سے عدالتوں میں پیش بھی ہوتے رہے۔
اس کے بعد قانون کا پہیہ کچھ ایسا گھوما کہ ان کے خلاف دائر مقدمات کی گرفت کمزور ہونے لگی حتیٰ کہ ایف آئی اے کے 16 ارب روپے کے منی لانڈرنگ کے مقدمے میں وہ اپنے دونوں بیٹوں سمیت بری ہو چکے ہیں۔

مقدمات کی موجودہ صورت حال

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد جن میں بیٹی اور داماد بھی شامل ہیں، ان پر عمران خان کے دور حکومت میں بنیادی طور پر چار مقدمات بنائے گئے۔
سب سے پہلا مقدمہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی پراجیکٹ میں کرپشن کا تھا۔ اس وقت نیب نے انہیں اپنے دفتر بلا کر گرفتار کیا اور وہ دو سال جیل میں رہے۔
دوسرا مقدمہ رمضان شوگر ملز سے متعلق تھا۔ شہباز شریف پر اور ان کے بیٹوں پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی شوگر ملز کے لیے سرکاری خرچ پر سڑک اور سیوریج سسٹم بنائے۔
تیسرا مقدمے میں نیب نے شہباز شریف پر منی لانڈرنگ اور آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزامات عائد کیے۔ یہ وہ مشہور زمانہ مقدمہ تھا جس میں مقصود چپڑاسی نامی شخص کا اکاؤنٹ استعمال ہونے کی خبریں بھی پاکستانی میڈیا کی زینت بنیں۔
چوتھا مقدمہ ایف آئی اے نے بنایا جس میں منی لانڈرنگ اور کرپشن کے الزامات عائد کیے گئے۔

شہباز شریف اور ان کے بیٹوں پر الزام تھا کہ انہوں نے اپنی شوگر ملز کے لیے سرکاری خرچ پر سڑک اور سیوریج سسٹم بنائے (فائل فوٹو: سکرین گریب)

اس مقدمے میں ایف آئی اے کی عدالت نے شہباز شریف اور ان کے دونوں بیٹوں کو باعزت بری کر دیا ہے۔
رمضان شوگر مل کیس نیب عدالت نے نیب قوانین میں تبدیلی کے بعد یہ کہہ کر واپس بھیج دیا کہ اس کیس کو سننے کے لیے عدالت دائرہ اختیار ختم ہو چکا ہے۔
نیب کے آشیانہ اور منی لانڈرنگ دونوں مقدموں میں اس وقت بریت کی درخواستیں دائر ہو چکی ہیں اور نیب نے باضابطہ طور پر اپنے الزام عدالت کے روبرو واپس لے لیے ہیں۔
عدالتی ریکارڈ اور حقائق کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف چار مقدمات میں سے ایک واپس ہو چکا ہے۔ ایک میں وہ بری ہو چکے ہیں اور دومقدمات میں بریت کی درخواستوں پر فیصلہ اگلے چند دنوں میں متوقع ہے۔

ایف آئی اے کیس میں بریت کیسے ہوئی؟

وزیراعظم شہباز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کی ایف آئی اے کے مشہور زمانہ منی لانڈرنگ مقدمے سے بریت کی خبر بین الاقوامی میڈیا کی زینت بھی بنی۔
اس مقدمے سے کئی اور خبریں بھی جڑی ہیں جن میں اس مقدمے کو بنانے والے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر ڈاکٹر رضوان اور مقدمے کے ایک گواہ اور ملزم مقصود چپڑاسی کی اموات بھی شامل ہیں۔
 گزشتہ برس 22 اکتوبر کو ایف آئی اے سینٹرل کورٹ نے شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو پراسیکیوشن کی اس رپورٹ پر بری کیا جس میں مقدمے کا کوئی گواہ گواہی دینے کو تیار نہیں تھا۔
اس بریت اور اس سے پہلے تحریک انصاف کے حامی یہ الزام بھی لگاتے رہے کہ یہ سب کچھ دھونس دھاندلی سے کیا جا رہا ہے۔
خود چئیرمین تحریک انصاف عمران خان دبے اور کھلے الفاظ میں یہ الزام میں دہرا چکے ہیں۔ تاہم اس مقدمے کے پراسیکیوٹر فاروق علی باجوہ ان تمام باتوں کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔

ایف آئی اے سنٹرل کورٹ نے گزشتہ برس شہباز شریف اور ان کے بیٹے حمزہ شہباز کو پراسیکیوشن کی اس رپورٹ پر بری کیا (فائل فوٹو: پی ایم ایل این، فیس بک)

اردو نیوز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سب لغو باتیں ہیں۔ جو بھی کی جا رہی ہیں۔ میں اس مقدمے میں ریاست کی طرف سے پراسیکیوٹر ہوں۔ ہم نے اس کیس میں کی گئی تفتیش سے کوئی بات واپس نہیں لی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ایف آئی اے نے کیس کے کسی فیکٹ کو واپس نہیں لیا جو بھی تفتیش شہزاد اکبر صاحب اور ان کے نیچے افسران نے کی تھی، اس میں اتنے جھول تھے کہ ان کو عدالت کے روبرو ثابت نہیں کیا جا سکتا تھا۔‘
اس مقدمے کی دستاویزات کے مطابق شریف فیملی خاص طور پر حمزہ شہباز اور سلمان شہباز کے بینک اکاؤنٹس سے 25 ارب روپے کے لین دین پر سوالات اٹھائے گئے تھے جو بعد ازاں کم کر کے 16 ارب روپے کر دیے گئے۔
اس کیس میں کل 113 گواہان رکھے گئے تھے۔ جبکہ ان اکاؤنٹس میں سے 50 لاکھ روپے اورنگ زیب بٹ نامی ایک شخص کی طرف سے شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں بھی منتقل ہوئے تھے، اس لیے ان کو بھی شریک ملزم بنایا گیا۔
فاروق باجوہ کہتے ہیں کہ ’اورنگ زیب بٹ نے گواہی دینے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ پیسے کیوں جمع کروائے تھے۔‘
’ان کا پہلا بیان تھا کہ پارٹی کا ٹکٹ لینے کے لیے یہ رقم دی تھی۔‘
پراسیکیوٹر کے مطابق ’اس کے علاوہ اس مقدمے میں شہباز شریف پر کوئی اور الزام نہیں تھا۔ سب سے بڑا سوال اس تفتیش میں یہ اٹھا کہ منی لانڈرنگ کے الزامات لگاتے ہوئے یہ ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کس مقصد کے لیے یہ رقم لانڈر کی گئی۔ اس تفتیش میں ایسا کوئی بھی لنک ثابت نہیں ہو سکا۔‘
خیال رہے کہ عدالت نے شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو مقدمات سے بری تو کر دیا البتہ ان تمام ایف آئی اے کے افسران کے خلاف کارروائی کے لیے حکومت کو حکم جاری کیا ہے جنہوں نے ناقص تفتیش اور ایسا مقدمہ بنایا جس میں یہ شواہد سامنے آئے کہ کیسے حکومتی دباؤ سے یہ مقدمہ بنایا گیا۔
عدالت نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے مشیر شہزاد اکبر کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دے رکھا ہے۔

شیئر: