اسحاق ڈار کا نگراں وزیراعظم بننا سیاسی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟
اسحاق ڈار کا نگراں وزیراعظم بننا سیاسی پیچیدگیوں کا سبب بن سکتا ہے؟
پیر 24 جولائی 2023 17:36
رائے شاہنواز، بشیر چوہدری - اردو نیوز
اسحاق ڈار کی سکیورٹی بھی بڑھائی جا چکی ہے اور وہ ہمہ وقت سکیورٹی حصار میں رہتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں موجودہ منتخب حکومت کا وقت اگست کے دوسرے ہفتے مکمل ہو رہا ہے۔ تاہم ابھی تک نگراں وزیراعظم کے حوالے سے باضابطہ اعلان تو نہیں ہوا، البتہ پاکستان کے مقامی میڈیا میں ذرائع سے خبریں چلائی جا رہی ہیں کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار متوقع طور پر اگلے نگراں وزیراعظم ہو سکتے ہیں۔
ان خبروں کی کُھل کر ابھی تک تردید نہیں کی گئی ہے۔ وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’نگراں وزیرِاعظم کا تقرر اور اس کا اعلان آئینِ پاکستان میں دینے گئے طریقہ کار کے مطابق ہو گا۔ وزیراعظم اس حوالے سے قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف سے رہنمائی اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں سے مشاورت کریں گے۔‘
سیاسی اور قانونی پیچیدگیاں
پاکستانی آئین میں نگراں وزیراعظم ہو یا کسی بھی صوبے کا نگراں وزیراعلٰی، اس کی تعیناتی کے لیے باقاعدہ طریقہ کار درج ہے۔ کسی بھی نگراں وزیراعظم کا تقریر حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی باہمی مشاورت سے طے ہونا آئین کی منشا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ برسراقتدار جماعت سے تعلق رکھنے والی کوئی شخصیت نگراں وزیراعظم بنے۔
اگر گزشتہ تین دہائیوں کا جائزہ لیا جائے تو 1993 میں معین قریشی، 1996 میں معراج خالد، 2007 میں میاں محمد سومرو، 2013 میں میر ہزار خان کھوسو اور 2018 کے انتخابات میں پاکستان کے نگراں وزیراعظم ناصرالملک تھے۔
سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم لگایا جاتا ہے تو یہ بڑی اچنبھے کی بات ہو گی۔ جو نگران حکومت کی روح ہے وہ ختم ہو جائے گی۔ اسحاق ڈار کے نگراں وزیراعظم بننے کا سیدھا سیدھا مطلب ہے کہ اگلے وزیراعظم نواز شریف ہوں گے پھر تو کسی تجزیے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے پہلے ایسا کبھی بھی نہیں ہوا۔ کسی نگراں وزیراعظم کا کسی سیاسی جماعت کی طرف جھکاؤ تو سمجھ میں آتا ہے لیکن کسی سیاسی جماعت کے سرگرم لیڈر اور سینیٹر کو نگرانی کی ذمہ داری سونپنا، کبھی بھی ایسا نہیں ہوا‘۔
ان سے جب سوال کیا گیا کہ اگر یہ تعیناتی حقیقتاً ہو جاتی ہے تو اس سے کیا پیچیدگی ہو گی؟ سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ ’یہ نام ہی سب سے بڑی پیچیدگی ہے۔ مسلم لیگ ن اتحادیوں کو تو شائد منا لے لیکن اس انتخاب سے کبھی بھی جانبداری کا کلنک نہیں مٹایا جا سکے گا۔ اور پھر تحریک انصاف کو یکسر نظر انداز کرنا کسی صورت بھی درست نہیں ہو گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’بظاہر یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ عمران خان شائد اگلے آنے والے دنوں میں گرفتار ہو جائیں۔ ایسے میں ان کے ساتھ جو کچھ بھی ہو چاہے وہ قانونی ہو یا غیرقانونی یہ سب مسلم لیگ ن کے کھاتے میں جائے گا، کیونکہ نگران حکومت اصل میں پھر مسلم لیگ ن کی ہو گی۔ اس لیے پیچیدگیاں تو ہوں گی اور توقعات سے زیادہ ہوں گی۔‘
ایسے میں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسحاق ڈار کی بطور نگراں وزیراعظم تعیناتی میں کوئی قانونی پیچیدگی بھی آڑے آ سکتی ہے؟ قانونی ماہرین کی رائے میں آئین میں براہ راست ایسی کوئی قدغن نہیں کہ نگراں وزیراعظم کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہو سکتا۔
لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق جنرل سیکریٹری رانا اسد اللہ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’آئین میں ایسی کوئی بندش نہیں ہے۔ چونکہ آئین میں جو طریقہ وضع ہے اس میں اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کا ذکر ہے تو جب اپوزیشن سے مشاورت ہو جائے اور ایک نام پر اتفاق بھی ہوجائے تو پھر آپ اس کو قانونی طور پر رد نہیں کر سکتے۔ البتہ اخلاقی طور پر معاملہ الگ ہے۔‘
حکومتی اتحادی کیا کہتے ہیں؟
آئین کے مطابق وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف مشاورت سے یہ عمل مکمل کریں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم بنانے کی مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں پیپل پارٹی کے رہنماوں کا کہنا ہے کہ ابھی تک تو ہمارے سامنے کوئی نام نہیں رکھا گیا۔ اگر اسحاق ڈار کا نام سامنے آیا تو اس کی مخالفت کی جائے گی۔
پیپلز پارٹی رہنماؤں کے مطابق مخالفت کی وجہ یہ ہے کہ نگراں حکومت وفاقی کی ہو یا صوبے کی اسے غیرجانبدار ہونا چاہیے۔
اس معاملے پر پارٹی کی نائب صدر شیری حمان نے کہا کہ نگران سیٹ اپ کے حوالے قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ نگراں وزیراعظم کے لیے پیپلز پارٹی سے کسی نام پر کوئی مشاورت نہیں ہوئی۔ ایسے تاثر دیا جا رہا ہے کہ نگراں وزیراعظم پر پیپلز پارٹی مان گئی ہے۔ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے فیک نیوز چل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی آئین کے مطابق ملک میں انتخاب چاہتی ہے۔ ہم چاہتے ہیں الیکشن میں تمام جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملنی چاہیے۔‘
’الیکشن ایکٹ میں کوئی ایک ترمیم نہیں بلکہ بہت سی ترامیم کی جا رہی ہیں۔ جو بھی ترامیم ہوں گی اتفاق رائے سے ہوں گی۔ تاہم پیپلز پارٹی سے منسوب خبروں کی تصدیق کر لینی چاہیے۔‘
دوسری جانب پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمداللہ نے بھی اسحاق ڈار کے نام سامنے آنے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ پر کسی نام کو تجویز کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ وہ جو مرضی نام تجویز کریں لیکن نگراں وزیراعظم کا فیصلہ اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے ہی کیا جائے گا۔‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’نام جس کا مرضی سامنے آئے گا اس کے مثبت اور منفی تمام پہلوؤں پر مشاورت ہو گی تب ہی جا کر کوئی فیصلہ ہو گا۔‘
اسحاق ڈار کی چال ڈھال میں کیا تبدیلی آئی ہے؟
دوسری جانب پارلیمانی راہداریوں اور پاک سیکرٹریٹ میں معمول کے مطابق آنے جانے والوں کا کہنا ہے کہ اسحاق ڈار کے معمولات گزشتہ دو ہفتوں سے بدل چکے ہیں۔
اس حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار کی سکیورٹی بھی بڑھائی جا چکی ہے اور وہ ہمہ وقت سکیورٹی حصار میں رہتے ہیں۔ وہ وزارت خزانہ کے انتظامی معمولات بھی سیکریٹری خزانہ کے سپرد کر کے خود صرف پالیسی اور عالمی معاشی معاملات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔