پولیس نے 12 گھنٹے آپریشن کے بعد بیوی بچوں کو باپ سے کیسے چھڑوایا؟
پولیس نے 12 گھنٹے آپریشن کے بعد بیوی بچوں کو باپ سے کیسے چھڑوایا؟
جمعرات 27 جولائی 2023 17:47
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ڈی پی او کے مطابق ’ملزم ایک سفاک اور جنونی انسان تھا جس کے تشدد سے ایک بچی کی آنکھ بھی ضائع ہوگئی‘ (فائل فوٹو: وہاڑی پولیس)
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع وہاڑی میں پولیس نے ایک ڈرامائی ایکشن کے بعد ایک باپ کے چُنگل سے بیوی اور بچوں کو آزاد کروایا۔ اس نے گن پوائنٹ پر انہیں یرغمال بنا رکھا تھا۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) وہاڑی محمد عیسیٰ خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’12 گھنٹے جاری رہنے والا آپریشن ہم نے کامیابی سے مکمل کیا۔ قاضی احمد نامی شخص بیوی بچوں کو اسلحہ کے زور پر تشدد کا نشانہ بنا رہا تھا اور اس کے پاس پستول بھی تھا۔‘
یہ واقعہ بدھ کی شام آٹھ بجے ضلع وہاڑی کے شہر بوریوالہ میں پیش آیا جب پولیس کو 15 پر اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنے ہی گھر میں اپنی بیوی اور بچوں کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
ڈی پی او محمد عیسی خان نے بتایا کہ ’اطلاع ملتے ہی ہم نے پولیس کی بھاری نفری علاقے میں بھیجی اور اس گھر کو گھیرے میں لے لیا۔ ہمارا ایک ہی مقصد تھا کہ مغویوں کو باحفاظت بازیاب کروایا جائے، اس لیے ہم نے بہت ہی احتیاط سے کام لیا۔ ‘
پولیس کے مطابق قاضی احمد نامی شخص کے بارے میں یہ اطلاع ملتے ہی اہل علاقہ سے اس سے متعلق چھان بین کی گئی تو اندازہ ہوا کہ وہ آئس کے نشے کا عادی ہے اور وہ اس وقت بھی نشے کی حالت میں تھا۔
ڈی پی او وہاڑی نے بتایا کہ ’ملزم ایک سفاک اور جنونی انسان تھا جس کے تشدد سے ایک بچی کی آنکھ بھی ضائع ہوئی، تمام بچوں کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے، ملزم بچوں کو بھی آئس کا نشہ کرنے پر مجبور کرتا تھا، چونکہ یہ ایک حساس معاملہ تھا اور انسانی جان ضائع ہونے کا خدشہ بھی تھا، اس لیے نہایت سمجھ داری کے ساتھ آپریشن مکمل کیا گیا۔‘
پولیس نے جب گھر کو گھیرے میں لیا تو ملزم قاضی احمد اپنی بیوی شاہین، چھ سالہ بیٹے عمر اور بیٹیوں 13 سالہ ایمن فاطمہ، 10 سالہ عدن فاطمہ اور آٹھ سالہ فاطمہ پر بدترین تشدد کر رہا تھا۔
گھر سے بچوں کے رونے اور چیخنے چلانے کی آوازیں آرہی تھیں۔ موقع پر پہنچنے والے پہلے پولیس افسر ڈی ایس پی محمد عمر کے مطابق ’پولیس کو جلد ہی احساس ہو گیا کہ یہ محض گھریلو تشدد کا واقعہ نہیں اور ملزم مسلح ہے، اس لیے ہم نے فوری آپریشن کی تیاری شروع کی اور اسی دوران ڈی پی بھی پہنچ گئے۔‘
پولیس آپریشن کی شروعات
ڈی پی او وہاڑی محمد عیسیٰ خان کا کہنا تھا کہ جلد ہی پولیس نے گھر کی چھت اور اردگرد خصوصی ٹیمیں تعینات کر دیں۔
’کئی گھنٹے ہم ملزم سے مذاکرات کرتے رہے اور اس کو اس بات پر قائل کیا کہ وہ بچوں کو باہر آنے دے، اسے کچھ نہیں کہا جائے گا لیکن وہ مشتعل ہو رہا تھا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’آئس کے نشے کی وجہ سے وہ انتہائی متحرک تھا۔ پولیس کی خصوصی ٹیمیں گھر میں داخل ہوئیں اور چاروں بچوں کو بازیاب کروا لیا۔ُ
’پولیس کے داخل ہونے پر ملزم قاضی احمد نے پستول سے فائرنگ شروع کر دی اور اپنی اہلیہ کو کمرے میں بند کر کے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ اگر کوئی ہماری طرف آیا تو سب کو مار ڈالوں گا۔‘
یہاں صورت حال بدل گئی ملزم اپنی اہلیہ کی کنپٹی پر پستول رکھ کر کھڑا تھا۔
ڈی پی او وہاڑی محمد عیسیٰ خان نے اس موقع پر آپریشن کی کمان خود سنبھال لی۔
انہوں نے بتایا کہ ’کنپٹی پر رکھے پستول سے خاتون کو بحفاظت بازیاب کرنا کسی بھی چیلنج سے کم نہ تھا جس کے لیے ایک لائحہ عمل طے کیا گیا۔ ملزم کے ساتھ گھر سے باہر آنے کے لیے مذاکرات کے لیے قریبی رشتہ داروں کو بھی آن بورڈ کیا گیا اور اس کی تمام باتیں بھی مان لی گئیں لیکن اس نے کسی کی نہ مانی اور چکمہ دیتا رہا۔‘
آخرکار پولیس نے دوبارہ آپریشن کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن میں ایلیٹ فورس اور سی آئی اے کی ٹیموں نے بھی حصہ لیا۔
ڈی پی او نے بتایا کہ ’ہم کامیاب رہے اور خاتون کو بازیاب کر کے ملزم کو گرفتار کر لیا، اس سے پستول اور خنجر بھی برآمد کیا۔ ملزم نے تشدد کے دوران ایک بچی کی آنکھ ضائع کر دی، باقی زخمیوں کو علاج کے لیے ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔‘
پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کر لیا اور اب ملزم سے پوچھ گچھ اور شواہد اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔