ملزمان کی اجازت کے بغیر موبائل ڈیٹا حاصل کرنا غیر آئینی ہے: عدالتی فیصلہ
ملزمان کی اجازت کے بغیر موبائل ڈیٹا حاصل کرنا غیر آئینی ہے: عدالتی فیصلہ
بدھ 26 جولائی 2023 20:11
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
عدالت نے لکھا کہ ’ملزم کے فون سے اجازت کے بغیر مواد نکالنا آئین کے آرٹیکل 13 کی خلاف ورزی ہے‘ (فائل فوٹو: وکی پیڈیا)
لاہور ہائی کورٹ نے ایک مقدمے میں قرار دیا ہے کہ پولیس یا قانونی نافذ کرنے والے ادارے ملزمان یا پھر عدالت کی اجازت کے بغیر موبائل ڈیٹا حاصل نہیں کر سکتے۔
لاہور ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ مبینہ طور پر شدت پسند تنظیم القاعدہ سے تعلق کے شبہ میں سزا پانے والے ایک ملزم کی اپیل کی سماعت کے بعد دیا ہے۔ عدالت نے ملزم کی سزا ختم کرتے ہوئے انہیں رہا کرنے کا حکم بھی دیا۔
مقدمے کی جزئیات:
ملزم محمد رحمت کا تعلق پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ سے ہے اور ان پر گذشتہ برس اپریل میں سی ٹی ڈی نے انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا تھا۔
ان پر الزام تھا کہ ان کا تعلق القاعدہ سے ہے اور ان کے قبضے سے ایک ممنوعہ کتاب ’شہید اسامہ صحرا سے سمندر تک‘ برآمد ہوئی، جبکہ موبائل فون ڈیٹا سے ملزم محمد رحمت کا القاعدہ سے تعلق ثابت ہوا۔‘
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جُرم ثابت ہونے پر گذشتہ سال نومبر میں محمد رحمت کو دو سال قید اور 10 ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی جس کے بعد انہوں نے سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس محمد امجد رفیق پر مشتمل دو رکنی بینچ نے اپیل پر سماعت کی۔
اپنے تحریری فیصلے میں عدالت نے لکھا ہے کہ ’ملزم سے برآمد ہونے والی کتاب عدالت میں پیش نہیں کی گئی۔‘
’پراسیکیوشن کے مطابق جب ملزم کو گرفتار کیا گیا تو وہ کسی دوسرے شخص کو کتاب تھما رہا تھا تاہم پولیس کو دیکھ کر دوسرا شخص بھاگ گیا اور آج تک اس کی شناخت ظاہر نہیں ہو سکی۔‘
مقدمے کے مندرجات پر بات کرتے ہوئے عدالت نے لکھا کہ سی ٹی ڈی کی ایک ٹیم کو واٹس ایپ پر ایک مخبر نے اس واقعے سے متعلق بتایا تھا اور 80 کلومیٹر کا سفر طے کر کے جب پولیس وہاں پہنچی تو ابھی تک کتاب لینے والا شخص بھی وہیں تھا۔
’پراسیکیوشن کی کہانی میں بہت جھول ہیں قانون کے مطابق اس بات میں شبے کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے۔ پراسیکیوشن الزامات کے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘
ناقص تفتیش:
لاہور ہائی کورٹ کے 20 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں عدالت کا کہنا ہے کہ پراسیکیوشن نے ملزم سے ضبط شدہ کتاب عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش نہ کرنے کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کا الزام ملزم کے موبائل فون سے حاصل شدہ مواد سے بھی ثابت ہوتا ہے جو گرفتاری کے وقت پولیس نے تحویل میں لیا تھا۔
عدالت نے لکھا کہ ’ملزم کے فون سے مبینہ طور پر حاصل ہونے والا مواد تصاویر، ویڈیوز وغیرہ ایک یو ایس بی کے ساتھ لگائی گئی ہیں۔‘
’تاہم اس مواد کو شہادت کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا، ’اس مواد کا ذکر ملزم کے ٹرائل کے دوران 342 کے بیان میں نہیں ہے اور نہ ویڈیو ٹرائل کورٹ میں چلائی گئی۔‘ بغیراجازت موبائل ڈیٹا نہیں لیا جا سکتا:
لاہور ہائی کورٹ کے تحریری فیصلے میں ٹرائل کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ ’ہمیں اس بات پر بھی تشویش ہے کہ ذاتی موبائل فون سے ڈیٹا کیسے لیا جاسکتا ہے چاہے وہ ملزم کا فون ہی کیوں نہ ہو۔‘
’جب تک کہ ان کی رضامندی شامل نہ ہو۔ یہ ایک ایک درست پریکٹس نہیں ہے اور یہ آئین میں دیے گئے پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔’
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ ’اس مقدمے میں اگر ملزم اپنا فون دینے پر رضامند نہیں تھا تو پولیس کوفون قبضے میں لے کر ڈیٹا نکالنے کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا۔‘
عدالت نے لکھا کہ ملزم کے فون سے اجازت کے بغیر مواد نکالنا آئین کے آرٹیکل 13 کی خلاف ورزی ہے۔
اپنے تحریری فیصلے میں عدالت نے مزید کہا کہ ’ملزم کے ذاتی موبائل فون سے تفتیش کے دوران بغیر اجازت معلومات لینا ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ آج کل کے دور میں موبائل فون میں لوگوں کی ہر طرح کی گھریلو اور ذاتی معلومات ہوتی ہے۔‘
’لوگ پبلک میں اور نجی طور پر اپنی مرضی سے اپنی چیزیں شیئر کرتے ہیں۔ چار دیواری کے اندر کسی بھی انسانی تعلق کو تحفظ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین نے اس کی ضمانت دی ہے۔‘
عدالت نے اپنے تحریری بیان میں مزید کہا کہ ’لوگ آج کل فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب وغیرہ سے ہر طرح کی معلومات حاصل کرتے ہیں۔ ایسی معلومات جس کو کوئی شخص اپنے موبائل فون میں چھپانا چاہتا ہو وہ معلومات اس کی اجازت کے بغیر حاصل نہیں کی جاسکتیں یا پھر قانونی طریقہ کار اپنایا جائے۔‘
عدالتی حکم نامے کے مطابق ’موبائل فون بھی گھر کی چاردیواری جیسا ہے، اور اس کا تقدس آئین کے آرٹیکل 14 کے مطابق گھر کے تقدس جیسا ہے۔‘
’تاہم اگر کسی شخص کے پاس ایسی کچھ معلومات ہیں جو ملکی قانون کے مطابق رکھنا جرم ہے تو پھر ایسی معلومات حاصل کرنے کے لیے قانون میں درج طریقہ کار اپنایا جائے۔‘
عدالت نے مزید کہا کہ ’پاکستان پرائیویسی کے حوالے سے کئی علاقائی اور بین الاقوامی معاہدوں کا پابند ہے۔‘
’آخر میں عدالت نے پراسیکیوشن کی کہانی کو مسترد کر کے محمد رحمت کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے مقدمے سے بری اور رہا کرنے کا حکم سنایا ہے۔‘ پاکستان میں پرائیویسی کا قانون:
دلچسپ بات یہ ہے کہ جس دن 26 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ نے ملزمان کی پرائیویسی کے حقوق پر فیصلہ دیا ہے اسی دن ملک کی کابینہ نے شہریوں کے موبائل ڈیٹا کی حفاظت کے نئے قانون کی منظوری دی جس کے تحت کوئی بھی کمپنی یا فرد کسی دوسرے کا ڈیٹا کمرشل استعمال کے لیے نہیں دے سکتا۔
قانونی ماہرین اس عدالتی فیصلے کو ایک اہم سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔ فوجداری مقدمات کے ماہر وکیل میاں داؤد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک تاریخی فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے کبھی بھی پرائیویسی کے حوالے سے تفصیلی فیصلہ نہیں آیا۔‘
’اس میں ملزمان کے حقوق کی بھی بات کی گئی ہے، عام شہری کی پرائیویسی تو اس سے بھی بہت آگے کی بات ہے۔ تاہم اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ لوگ خلاف قانون مواد اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ عدالت نے صرف طریقہ کار وضح کیا ہے کہ اگر کسی کے پاس ایسا مواد ہے جو قانون کے خلاف ہے تو اس تک رسائی صرف قانون کے مطابق لی جا سکتی ہے نا کہ زور زبردستی کی جائے۔‘