Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’رضوانہ کو پھینک کر گاڑی دوڑا دی، وہ خوف اور درد سے کانپ رہی تھی‘

 اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کی گرفتاری میں مدد کی اپیل کی ہے (فوٹو: اردو نیوز)
 جنرل ہسپتال میں 15 سالہ رضوانہ کا علاج جاری ہے جہاں آئی سی یو کے باہر پولیس پہرہ دے رہی ہے جبکہ 13 ڈاکٹروں کی ٹیم وقفے وقفے سے متاثرہ بچی کا معائنہ کر رہی ہے۔
چوتھی منزل پر بنے آئی سی کے کمرے کے باہر ایک ہی خاندان کے کئی افراد جن میں خواتین اور مرد شامل ہیں کھڑے ہیں اور ان کی نظریں آئی سی یو پر ہیں جہاں انہیں جانے کی اجازت نہیں صرف اندر رضوانہ کی والدہ اور والد کو ہے۔
اچانک آئی سی یو کا دروازہ کھلا اور پولیس کی ایک ٹیم باہرنکلی اور ان کے ساتھ رضوانہ کی والدہ بھی تھیں جن کو آئی سی یو سے باہر نکلتے ہی ایک اور خاتون نے تھام لیا اور سیڑھیوں پر بٹھا دیا۔
پولیس جا چکی تھی لیکن دو اہلکار ابھی بھی آئی سی یو کے باہر موجود تھے۔ رضوانہ کے والد مانگا اندر بیٹی کے پاس واپس چلے گئے جبکہ والدہ شمیم فکرمند آنکھوں سے آئی سی یو دروازے کو دیکھ رہی تھیں۔
ہسپتال کی طرف سے بنائے گئے میڈیکل بورڈ کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر جودت سلیم نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے ٹیم میں ہر طرح کے ڈاکٹرز شامل ہیں۔ دماغ سے لے کر جسم کے مختلف اعضا کے سپیشلسٹ بھی ہیں۔ بچی کے جسم پر مختلف حصوں پر چوٹیں ہیں لیکن سب سے اہم اس کے دماغ کو پہنچنے والی چوٹ اور دماغ کی سوزش ہے۔ ہم انتہائی احتیاط سے اس کا علاج کر رہے ہیں اور ہماری ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ  برین سرجری کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔‘
شمیم بی بی آئی سی یو سے باہر نکلیں تو وہ غم سے نڈھال تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی کی حالت پہلے سے بہتر ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا۔ اس سے ٹھیک طرح سے بات نہیں ہوتی اور وہ بہت ڈری ہوئی ہے۔ لیکن ہم خدا کا شکر کرتے ہیں کہ حکومت نے اسے پوری توجہ دی ہے۔‘
رضوانہ کا تعلق سرگودھا سے اور ان کی والدہ کے بقول گذشتہ کئی ماہ سے وہ اسلام آباد میں ملازمہ کے طور پر گئی تھیں، تاہم اس کے بعد ان سے بچی کی ملاقات نہیں کروائی گئی اور 23 جولائی اتوار کے روز اسلام آباد بس سٹینڈ پر بلا کر بچی کو زخمی حالت میں ان کے حوالے کیا گیا۔
شمیم بی بی نے بتایا کہ ’میری بیٹی جن کے پاس کام کرتی تھیں وہ لوگ بڑی گاڑی میں آئے اور مجھ سے جگہ کی نشاندہی کر کے بچی کو میرے قریب پھینک کر گاڑی دوڑا دی۔ بچی درد اور خوف کی شدت سے کانپ رہی تھی۔ میں نے گھر اپنے میاں کو فون پر بتایا اور اس کے بعد بس میں دوسیٹیں کرائے پر لیں اس کی حالت دیکھتے ہوئے اسے لٹایا اور خود کھڑی ہو کر سرگودھا رات دو بجے پہنچی۔‘

شمیم بی بی کا کہنا ہے کہ ’میری بیٹی کی حالت پہلے سے بہتر ہے، لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہو رہا‘ (فوٹو: اردو نیوز)

جنرل ہسپتال کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر الفرید ظفر نے بتایا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ بچی انتہائی ٹراما میں ہے ہم ہر طرح سے کوشش کر رہے ہیں کہ اس کی صحت میں بہتری لائی جا سکے۔ اس لیے اب ہم نے میڈیکل بورڈ میں ایک سائیکٹرسٹ کا اضافہ کر دیا ہے تاکہ بچی کی ذہنی صحت کی بحالی کا کام بھی ساتھ ہی شروع ہو۔‘
ہسپتال انتظامیہ نے رضوانہ کے خاندان کے افراد کو ایک الگ پرائیویٹ کمرہ بھی دے رکھا ہے جس میں وہ رہائش پذیر ہیں، جبکہ بچی کے دائیں بازو کی ہڈی اور دماغ میں ہونے والی سوزش اور زخموں کا علاج جاری ہے۔ میڈیکل بورڈ میں ایک گائناکالوجسٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے پہلے سال 2018 میں اسلام آباد میں ہی ایک ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی اور ان کی اہلیہ کو طیبہ نامی گھریلو ملازمہ پر تشدد کا الزام ثابت ہونے ایک ایک سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ اسلام آباد میں تعینات سول جج اور ان کی اہلی پر بھی یہی الزام ہے۔

رضوانہ کے خاندان کے کئی افراد جن میں خواتین اور مرد شامل کی نظریں آئی سی یو پر ہیں (فوٹو: اردو نیوز)

رضوانہ کے والدین نے بتایا کہ ’اسلام آباد سے نیلی وردی والی پولیس بھی یہاں آئی تھی، لیکن ان کا رویہ ہمارے ساتھ اچھا نہیں تھا۔ ہمیں نہیں پتا وہ کیا لکھ کر لے گئے ہیں جب ہم نے انہیں کہا کہ ہمیں پڑھ کر سنائیں کہ کیا لکھا ہے تو وہ اس بات پر ناراض ہوئے۔‘
ہسپتال انتظامیہ نے اس واقعے کے بعد پولیس کی خدمات حاصل کی ہیں اور اس وقت لاہور پولیس کی ایک ٹیم ان کی نگرانی پر مامور ہے۔
دوسری جانب اسلام آباد پولیس نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ گھریلو ملازمہ پر تشدد میں ملوث ملزمہ کی گرفتاری میں مدد کے لیے معلومات فراہم کی جائیں۔ 
پولیس کے  بیان کے مطابق ’مقدمہ میں ملوث ملزمہ کے ساتھ ہرگز نرمی نہیں برتی جائے گی۔ کسی شخص کو ملزمہ کے بارے کوئی معلومات ہوں تو پولیس کو اطلاع کرے۔‘
منگل کو اسلام آباد کی جوڈیشل اکیڈمی میں تعینات سول جج چودھری عاصم حفیظ کی گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

شیئر: