Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ماں کو قتل کروانے کے لیے دو سال رقم اکٹھی کرنے والا سوتیلا بیٹا کیسے پکڑا گیا؟

کنول زار ہسپتال کے قریب پہنچی ہی تھیں کہ اچانک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان لڑکے قریب آئے اور گولی چلا دی۔ (فائل فوٹو: ٹوئٹر)
دیرینہ دشمنی پر شوٹرز کو سپاری (رقم) دے کر مخالفین کو ٹھکانے لگانے کا سلسلہ تو گزشتہ کئی برسوں سے چل رہا ہے لیکن کرائے کے یہ قاتل اب گھریلو ناچاقی، میاں بیوی کے جھگڑوں اور رشتے داری کے تنازعات میں بھی سپاری لے کر قتل کرنے لگے ہیں۔
رواں برس یکم جون کو لاہور میں رات نو بج کر 45 منٹ پر سبزہ زار کے علاقے میں نجی ہسپتال کے قریب ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا۔
نجی ہسپتال میں بطور نرس ملازمت کرنے والی خاتون کنول زار معمول کے مطابق نائٹ شفٹ میں ڈیوٹی کے لیے اپنے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر ہسپتال کے قریب پہنچی ہی تھیں کہ اچانک ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان لڑکے قریب آئے اور گولی چلا دی۔ 38 سالہ خاتون نرس کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں چند دن زیرِعلاج رہنے کے بعد وہ دم توڑ گئیں۔
اس قتل کے حوالے سے پولیس نے مختلف پہلوؤں پر تفتیش شروع کی تو ان کا شک ایک ایسے کردار پر گیا جس کی عمر ابھی 24 برس تھی اور وہ مقتولہ کا سوتیلا بیٹا مدثر تھا۔
مدثر کے چہرے پر اضطراب کی کیفیت اور متضاد بیانات نے پولیس کے شک کو مزید تقویت دی اور بالآخر اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اس نے دوران تفتیش کنول زار کو شوٹرز کے ذریعے قتل کروانے کا اعتراف کر لیا۔ 

کنول زار کون تھیں اور ان کا قتل کیوں ہوا؟

کنول زار گزشتہ 12 برس سے سبزہ زار کے علاقے میں واقع ایک نجی ہسپتال میں بطور نرس ملازمت کر رہی تھیں۔ یہاں ان کی ملاقات ایڈمن آفیسر ملک خالد سے ہوئی اور دونوں میں بے تکلفی بڑھتی گئی۔ دونوں نے اس تعلق کو رشتے کا نام دینے کا فیصلہ کیا اور یوں کنول زار نے اپنے ایڈمن آفیسر ملک خالد سے شادی کر لی، لیکن ملک خالد پہلے سے شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا۔
جہاں خالد کی پہلی بیوی اور بچوں نے اس شادی کو تسلیم نہ کیا وہی دوسری بیوی کنول نے بھی شوہر کی پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ رہنا پسند نہیں کیا۔
خالد ملک نے کنول کو علیحدہ گھر لے کر دیا لیکن دوسری شادی کرنے کے بعد ان کی توجہ دو حصوں میں بٹ چکی تھی جس کا رنج پہلی بیوی کی اولاد کو بہت زیادہ تھا، اور یہی احساس کنول زار کے قتل کی وجہ بنا۔

دوران تفتیش مدثر نے بتایا کہ سپاری دے کر سوتیلی ماں کو راستے ہٹانے کا آئیڈیا شوٹرز پر بننے والی فلموں اور ڈراموں سے لیا۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

قانون کا طالب علم خلاف قانون کیوں گیا؟

مدثر ایل ایل بی کا طالب علم ہے اور سوتیلی ماں کے قتل کا ملزم قرار دے دیا گیا ہے۔
دوران تفتیش مدثر نے پولیس کو بتایا کہ ’کنول زار کو اس نے ہی قتل کروایا ہے اور قتل کی اس واردات کا منصوبہ سنہ 2021 میں بنایا تھا جس پر عمل درآمد کے لیے چار لاکھ روپے درکار تھے، کیونکہ وہ شوٹرز کو ادائیگی ک رکے سوتیلی ماں کو قتل کروانا تھا۔‘
قتل کی وجہ پوچھنے پر ملزم نے بتایا کہ ’دوسری شادی کے بعد والد کا رویہ بہت بدل چکا تھا۔ وہ بات بات پہ غصہ کرنے کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ اور مار پیٹ کرنے لگے تھے، حتیٰ کہ گھریلو معاملات میں بھی ان کی دلچسپی نہیں رہی تھی۔ اور اس تمام تر صورتحال کی وجہ ان کی دوسری بیوی کنول زار تھی۔ جس کے اکسانے پر باپ نے بچوں اور پہلی بیوی کے ساتھ ناروا سلوک کرنا شروع کر دیا تھا۔‘
واردات کے تفتیشی آفیسر رانا عمر دراز کے مطابق مدثر کی سگی ماں کا اس قتل کیس میں کیا کردار رہا، اس معاملے پر پولیس ابھی تفتیش کر رہی ہے لیکن ملزم کے بیانات اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ماں کا رونا اور بہنوں کے ساتھ والد کا سلوک دیکھ کر ملزم مدثر کے ذہن میں مقتولہ کے بارے میں سوائے نفرت اور انتقام کے کسی اور چیز نے جگہ نہیں بنائی۔ 

سپاری کی رقم کے لیے دو برس کا انتظار 

دوران تفتیش مدثر نے بتایا کہ سپاری دے کر سوتیلی ماں کو راستے ہٹانے کا آئیڈیا ٹارگٹ کلرز یا شوٹرز پر بننے والی فلموں اور ڈراموں سے لیا۔
سنہ 2021 میں گھر پر مزدوری کرنے والے دو نوجوانوں شاہد اور گلباز سے مدثر کی ملاقات ہوئی۔ یہ دونوں پیشہ ور ٹارگٹ کلرز یا شوٹرز تو نہیں تھے لیکن مدثر کی جانب سے چار لاکھ روپے کی پیشکش پر انہوں نے یہ کام انجام دینے کا فیصلہ کر لیا۔ 

کرایے کے قاتل اب گھریلو ناچاقی، میاں بیوی کے جھگڑوں اور رشتے داری کے تنازعات میں بھی سپاری لے کر قتل کرنے لگے ہیں۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

اب ان کرایے کے قاتلوں کو بطور سپاری رقم دینے کے لیے قانون کا یہ طالب علم دو برس تک جیب خرچ سے پیسے بچاتا رہا اور کچھ قرض بھی لیا۔
رقم کا انتظام ہونے پر مدثر اور دونوں شوٹرز چھ دن تک کنول زار کے آنے جانے والے راستے کی ریکی کرتے رہے اور ساتویں دن انہوں نے اپنے منصوبے کو عملی شکل دینے کی ٹھان لی۔
اس روز مدثر ان کے ساتھ موجود نہیں تھا لیکن دونوں شوٹرز شاہد اور گلباز، کنول زار کے چہرے کی شناخت کر چکے تھے۔ دونوں نے ڈیڑھ کلومیٹر تک کنول زار کا پیچھا کیا اور ہسپتال کے قریب پہنچ کر ان کو گولی مار دی۔

میاں بیوی کے جھگڑے اور کرایے کا قاتل 

لاہور میں رواں برس میاں بیوی کے جھگڑوں، گھریلو ناچاقی کے واقعات میں کرایے کے قاتلوں، شوٹرز یا ٹارگٹ کلرز کے ذریعے قتل کے پہ در پہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
رواں برس یکم اپریل کی صبح آٹھ بجے ریٹائرڈ ایس پی فرحت عباس کو دن دیہاڑے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تفتیش پولیس کے لیے ایک چیلنج تھی لیکن جائے وقوعہ کے قریب نصب کیمروں کی کلوزسرکٹ فوٹیجز کی مدد سے عارف آفریدی نامی ٹارگٹ کلر کو ٹریس کر کے گرفتار کیا گیا، جس نے انکشاف کیا کہ ریٹائرڈ پولیس آفیسر کے قتل کی سپاری ان کی بیوہ بھابھی حرا نے دی تھی۔ 
ملزمہ نے شوہر کی وفات کے بعد جائیداد میں حصہ لے کر اسی شوٹر عارف آفریدی سے شادی کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ملزمہ حرا کو بھی شوٹر کی نشاندہی پر گرفتار کر لیا گیا۔
اسی طرح شاہدرہ میں مریم نامی خاتون نے اپنے شوہر ذیشان کو قتل کروانے کے لیے ایک پرانے دوست شان کو فون کر کے شوہر کے ساتھ ہونے والے جھگڑوں کے بارے میں بتایا۔ شان نے مریم کے ساتھ مل کر اس کے شوہر ذیشان کو قتل کروانے کا منصوبہ بنایا اور دو شوٹرز سے دو لاکھ روپے کے عوض قتل کی ڈیل طے کی۔

رواں برس یکم اپریل کو ریٹائرڈ ایس پی فرحت عباس کو دن دیہاڑے فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔ (فائل فوٹو: پکسابے)

چار فروری کو شوٹرز نے مریم کے شوہر ذیشان کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔
بادامی باغ میں مقدس نامی خاتون نے بھی گھریلو ناچاقی پر اپنے شوہر دانش کو دو شوٹرز کے ہاتھوں قتل کروا دیا ۔
ہربنس پورہ میں بھی سمیرا نامی خاتون نے سعودیہ مقیم کزن سے شادی کے لیے اپنے شوہر شاہد رشید کو شوٹرز کے ہاتھوں قتل کروایا۔ اس کے لیے 13 لاکھ روپے کی رقم دو اقساط میں ادا کی گئی۔
کوٹ لکھپت میں گزشتہ برس دسمبر میں ایم اے انگلش کی طالب علم لڑکی نے سگے بھائی کو دو شوٹرز سے قتل کروا دیا کیونکہ وہ اپنے ایک کزن کو پسند کرتی تھیں لیکن بھائی اپنی بہن کی شادی اس نوجوان سے کرانے کے حق میں نہیں تھا۔

بے روزگاری سے سیدھا ٹارگٹ کلنگ

ایس پی انویسٹی گیشن علامہ اقبال ٹاؤن ڈاکٹر عقیلہ نقوی اسی نوعیت کے تین کیسز کی تفتیش کر چکی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پیشہ ور ٹارگٹ کلرز یا شوٹرز کے ذریعے مخالفین کو قتل کروانے کا سلسلہ 90 کی دہائی سے چل رہا ہے، لیکن حالیہ واقعات میں ملوث شوٹرز کوئی پیشہ ور اجرتی قاتل نہیں ہیں بلکہ مزدور یا بےروزگار طبقہ ہے جو معمولی رقم کے لیے کرایے کا قاتل بننے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
لاہور میں رواں برس ہونے والے زیادہ تر واقعات جن میں بیوی نے شوہر یا بہن نے بھائی کو قتل کروایا ان میں بھی ذیادہ تر قاتل وہ لوگ ہیں جن کا کوئی کریمنل ریکارڈ نہیں۔ بلکہ پیسوں کے لالچ کے لیے یہ لوگ فائرنگ کر کے کسی کو بھی قتل کرنے کے لیے تیار ہوئے ہیں۔ جس کے بعد ان کا کریمنل ریکارڈ بطور شوٹرز تیار کیا جاتا ہے۔  
آرگنائزڈ کرائم کی تفتیش کرنے والے یونٹ سی آئی اے پولیس کا دعویٰ ہے کہ دیرینہ دشمنی یا انڈر ورلڈ کے لیے کام کرنے والے اکثر شوٹرز یا تو مقابلوں میں مارے جا چکے ہیں یا پولیس کے خوف سے بیرون ملک فرار ہو چکے ہیں جن کی گرفتاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

شیئر: