پاکستان اور چین کے درمیان مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں جن کے تحت زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی۔
پیر کو وزیراعظم ہاؤس میں پاکستان چین اقتصادی راہداری کی دس سالہ تقریبات کے موقع پر مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط ہوئے جس میں وزیراعظم شہباز شریف اور چین کے نائب وزیرِاعظم ہی لائفنگ بھی اپنے وفد کے ہمراہ موجود تھے۔
تقریب سے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ اہم دستاویزات پر دستخط ہوئے ہیں جس سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون مزید بڑھے گا۔
مزید پڑھیں
-
سعودی عرب، چین اور امارات نے ہماری غیرمشروط مدد کی: وزیراعظمNode ID: 782971
-
چین کے نائب وزیرِاعظم تین روزہ دورے پر آج پاکستان پہنچیں گےNode ID: 783381
انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے کا آغاز ہونے جا رہا ہے جس کے تحت زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری ہوگی تاکہ چین کے تعاون اور حمایت سے پاکستان اپنی اشیا چینی حکومت کی ضرورت اور سٹینڈرڈ کے مطابق برآمد کر سکے۔
وزیراعظم نے کہا کہ سی پیک کے تحت توانائی، انفراسٹرکچر، ہائیڈل پاور اور پبلک ٹررانسپورٹ کے مختلف منصوبوں میں 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور چین کی دوستی برقرار رہے گی اور اس میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کی جائے گی۔
’پاکستان مشترکہ ترقی اور خوشحالی کے حوالے سے صدر شی جن پنگ کے نظریے اور تصورات کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
خیال رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کے خصوصی نمائندے اور کمیونسٹ پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کے پولٹ بیورو کے رکن نائب وزیرِاعظم ہی لائفنگ 30 جولائی سے یکم اگست تک پاکستان کے دورے پر ہیں اور بحیثیت مہمان خصوصی سی پیک کی 10 سالہ تقریبات میں شریک ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) بیجنگ کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں میں سے انتہائی اہم ہے۔
سال 2013 میں شروع ہونے والے اس میگا منصوبے کے بعد سے ٹرانسپورٹ، توانائی اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی جا چکی ہے۔
Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif and Vice-Premier State Council of China, He Lifeng at Prime Minister's House in Islamabad, today. #DecadeOfCPEC pic.twitter.com/8JQpTTcMUP
— Prime Minister's Office (@PakPMO) July 31, 2023
تاہم پاکستان کی معاشی مجبوریوں اور عسکریت پسندوں کی جانب سے چینی اہداف پر حملوں کے باعث بھی سی پیک پر کام تعطل کا شکار رہا۔
اسلام آباد کی کوم سیٹس یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے ماہر پروفیسر عظیم خالد کا کہنا ہے کہ سی پیک کے شروع ہونے کے دس سال بعد اس منصوبے کے ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت چین کو بحیرہ عرب کے ساتھ جوڑنے کا بنیادی مقصد پورا نہیں ہو سکا جبکہ پاکستان مختصر مدت کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔
حالیہ برسوں میں چین بھی اسلام آباد کے سب سے قابل اعتماد غیر ملکی شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے جس نے پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے میں مدد کی۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ چین کے بینک نے پاکستان کے زمے 2.4 ارب ڈال کا قرض دو سال کے لیے رول اوور کر دیا ہے، پاکستان دونوں سالوں میں صرف سود کی ادائیگی کرے گا۔
گزشتہ سال آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ چین اور اس کے کمرشل بینکوں کے پاس پاکستان کے کل بیرونی قرضوں کا تقریباً 30 فیصد حصہ ہے۔
چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات کی مثال ’ہمالیہ سے مضبوط، بحیرۂ عرب سے گہری اور شہد سے زیادہ میٹھی‘ کے الفاظ میں بیان کی جاتی ہے۔
علاوہ ازیں دنیا کے طویل ترین پہاڑی سلسلے قراقرم میں سیاچن گلیشیئر کے قریب پاکستان اور چین 596 کلومیٹر کی سرحد شیئر کرتے ہیں۔
لیکن گہرے تعلقات کے ان دعوؤں کے باوجود متعدد رکاوٹوں کا اثر سی پیک کے منصوبے پر بھی ہوا۔
اقتصادی راہداری چین کے لیے بحر ہند تک رسائی کے لیے ایک پرکشش راستہ ہے، لیکن چینی کارکنوں کی حفاظت اور تحفظ بیجنگ کے لیے تشویش کا باعث رہا ہے۔
