Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ہم روز روتے ہیں، مودی کیا کر رہے ہیں،‘ منی پور کی بے گھر خواتین کا المیہ

منی پور کے نسل فسادات میں تقریباً 50 ہزار افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈیا کی شورش زدہ ریاست منی پور میں نسلی فسادات نے کمیونٹیز کو منقسم کر دیا ہے لیکن جس فریق سے بھی بات کرو وہ ایک ہی طرح کی ظلم کی داستان سناتا ہے کہ کس طرح سے ان کے پیاروں کو قتل کیا، گھر نذر آتش ہوئے اور اب کیمپوں میں کتنی سخت زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ہندو میٹی اور مسیحی ککی قبیلے کے درمیان مئی سے شروع ہونے والے ان فسادات میں کم از کم 120 افراد ہلاک ہو چکے ہیں تاہم مقامی افراد کے خیال میں اصل اعداد و شمار اس سے کئی زیادہ ہیں۔
تقریباً 50 ہزار افراد جبراً بے گھر ہو چکے ہیں جن میں سے ایک رنجانا موری انگتھم بھی ہیں جنہیں فوج کی مدد سے محفوظ مقام پر پہنچایا گیا تھا۔
رنجانا موری انگتھم کا تعلق میٹی قبیلے سے ہے اور وہ فسادات شروع ہونے سے پہلے ککی اکثریت والے علاقے چورا چاند پور میں رہتی تھیں۔
جب دو قبائل کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئیں اور حالات اس قدر کشیدہ ہو گئے کہ رنجانا کو بھی اپنی جان بچانے کے لیے گھر چھوڑنا پڑا لیکن خوف و ہراس کی اس صورتحال میں نہ اضافی جوڑا رکھنے کا موقع ملا اور نہ ہی اپنے تعلیمی سرٹیفیکیٹ اور ڈگریاں بچا سکیں۔
بعد میں رنجانا نے اپنی ایک ککی دوست سے کہا بھی کہ اگر وہ ان قیمتی دستاویزات کو بچانے میں ان کی مدد کر سکیں لیکن انہیں بتایا گیا کہ جن ہزاروں گھروں کو آگ لگائی گئی ہے، رنجانا کا گھر بھی ممکنہ طور پر ان میں سے ایک ہے۔
رنجانا نے بتایا کہ شعبے کے اعتبار سے وہ ٹیچر ہیں اور اپنی تعلیم کو ثابت کرنا ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔
میٹی قبیلے سے تعلق رکھنے والی رنجانا بے گھر ہونے کے بعد ضلع موئرنگ میں قائم ایک عارضی کیمپ میں رہتی ہیں اور حکومتی امداد پر منحصر ہیں۔

ککی اور میٹی قبیلے کے 120 سے زائد افراد فسادات میں ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

رنجانا کا کہنا ہے کہ وہ واپس چورا چاند پور جانا چاہتی ہیں جہاں انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور وہی ان کا گھر ہے۔
موئرنگ کے ریلیف کیمپ میں رہنے والی ایک اور سونیا نامی میٹی خاتون نے بتایا کہ جب گروہ در گروہ ان کے علاقے چاند پور میں داخل ہوئے تو انہوں نے مقامی سیاستدانوں سے رابطے کی کوشش لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔
سونیا نے غصے میں جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ان کا مسئلہ تو حکومت کے ساتھ ہے نہ، تو ہمارے گھروں کو کیوں نذر آتش کر رہے ہیں؟‘
’سیلابوں کے دوران بھی لوگوں کو ریلیف کیمپوں میں منتقل کیا گیا لیکن وہ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے، ہم کیا کریں گے؟‘
بنگلہ دیش، چین اور میانمار کے سنگم پر واقع انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں میں ہمیشہ ہی نسلی گروہوں کے درمیان کشیدگی رہی ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ فسادات کی غیرجانبدار تحقیقات کرانے اور منی پور کے لوگوں کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود منی پور میں کشیدگی برقرار ہے اور جو افراد بے گھر ہوئے وہ حکومت پر شدید غصے میں ہیں۔
سونیا نے چیختے ہوئے وزیراعظم سے اپیل کی، ’منی پور میں ہزاروں افراد آنسو بہا رہے ہیں، نریندر مودی کیا کر رہے ہیں۔ کیا ہم انڈیا کے شہری نہیں ہیں۔‘
نسلی فسادات کے بعد قبائل منقسم ہو چکے ہیں اور چورا چاند پور میں اب میٹی قبیلے کا خیر مقدم نہیں کیا جائے گا بلکہ ککی کی جانب سے سختی سے خبردار کیا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کا ’خون رائیگاں نہیں جائے گا۔‘

وزیر داخلہ نے فسادات کی غیرجانبدار تحقیقات کرانے کا وعدہ کیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

ککی قبیلے نے اپنے ضلع چاند پور میں ایک یادگار بھی بنائی ہوئی ہے جہاں ہلاک ہونے والوں کی تصاویر آویزاں ہیں جن میں دو ماہ کا ایک بچہ بھی شامل ہے۔
بے گھر ہونے والے ککی افراد کے لیے قائم ریلیف کیمپ میں پناہ لینے والی ایک 40 سالہ خاتون وینل ہنگ نے بتایا کہ کالے کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں کی تعداد میں افراد ان کے گھر میں داخل ہوئے، لوٹ مار کی اور پھر آگ لگا دی۔
’روزانہ ہم روتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو تو اتنا وقت بھی نہیں ملا کہ بھاگنے سے پہلے جوتے پہن لیں۔‘

شیئر: