Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف کی شرط کے باوجود پاکستان میں درآمدات کا نظام بہتر کیوں نہ ہو سکا؟

امپورٹرز حکومت کی پالیسی سے نالاں نظر آتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ایل سیز (لیٹر آف کریڈٹ) کھلنے میں مسلسل تاخیر اور محکموں کی چپقلش کی وجہ سے کئی ماہ قبل کراچی پہنچنے والی سینکڑوں گاڑیاں، مشینیں، کپڑے اور اشیا خورونوش سمیت دیگر سامان اب تک کلئیر نہیں ہو سکا ہے۔
کار امپورٹرز کے مطابق اس وقت کراچی کی بندرگاہ پر 650 سے زائد گاڑیاں موجود ہیں۔ جنہیں کلیئر کرنے کے لیے روز دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں، لیکن مسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسٹمز اہلکار ایک روز ایک بات بتاتے ہیں دوسرے روز دوسری بات کرتے ہیں۔  
امپورٹرز حکومت کی پالیسی سے نالاں ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان میں کہا کچھ جاتا ہے اور کیا کچھ جاتا ہے۔ حکومتی اعلان پر پیسے جمع کروا دیے، اب اپنے خریدے سامان کی تمام ادائیگیوں کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب غیر قانونی طریقے سے پاکستان میں سامان لانے والے باآسانی اپنا کاروبار کر رہے ہیں۔ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کو سہولیات فراہم کی جارہی ہیں اور قانونی طریقوں سے کام کرنے والوں کو پریشان کیا جارہا ہے۔
آئی ایم ایف کی امپورٹ بحال کرنے کی شرط پر کتنا عمل درآمد ہو رہا ہے؟
آل پاکستان کار امپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی امپورٹ کے معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ جو گاڑیاں امپورٹرز نے گذشتہ سال منگوائی تھیں وہ اب تک پورٹ پر ہی پھنسی ہوئی ہیں۔ کئی بار متعلقہ محکموں سے بات چیت کر چکے ہیں۔ لیکن کوئی حل نہیں نکل سکا ہے۔
’پاکستان میں گاڑیاں امپورٹ کرنے والوں نے گھریلو استمال کی کاریں امپورٹ کرنے میں 80 فیصد تک کمی کر دی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ گاڑی کا پورٹ سے کلئیر نہ ہونا اور ڈیوٹیز میں مسلسل اضافے کے باعث گاڑی کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانی اب ملک میں اپنے پیاروں کو گاڑی بھیجنے میں دلچسپی نہیں لے رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ 650 زائد گاڑیاں اب بھی کراچی کی بندرگاہ پر موجود ہیں جن کے ڈیمریج میں ہر ماہ اضافہ ہو رہا ہے۔ خریداری کی مد رقم ادا کرنے کے بعد پاکستان لانے پر اتنا خرچ نہیں آیا جتنا اب ان کے پورٹ کھڑے کھڑے کرائے کی صورت میں بنتا جارہا ہے۔ اور یہ مسئلہ کب حل ہوگا اس بارے میں کوئی محکمہ بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔
کراچی میں چین سے پلاسٹک کا سامان امپورٹ کرنے والے ایک ٹریڈر فیصل چاولہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں دو طرح کے نظام چل رہے ہیں۔ ایک نظام وہ ہے جو خبروں کے ذریعے سے بتایا جاتا ہے اور دوسرا نظام وہ ہے جو اداروں میں کام کے لیے جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں نظاموں میں اصل اور عملدرآمد ہونے والا نظام وہ ہے جو بینک، پورٹ اور کسٹم ہاوس جانے کے بعد معلوم ہوتا ہے۔

فیصل چاولہ کے مطابق چھ ماہ قبل دو کنٹینرز کا سامان پاکستان منگوایا تھا (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے بتایا کہ چھ ماہ قبل دو کنٹینرز کا سامان پاکستان منگوایا تھا۔ اپریل میں پاکستان کی بندرگاہ پر پہنچنے والا سامان اب تک کلیئر نہیں ہوسکا ہے۔ بینک میں پیسے بھی ایڈوانس جمع کروائے ہیں۔ ایل سی کی تمام شرائط پوری کی ہیں اس کے باجود سامان نہیں مل سکا ہے۔ کسی بھی محکمہ میں جا کر بات کرو تو کہا جاتا ہے ڈالر ہیں نہیں، کلیئرنگ صرف ضروری اشیا کی ہورہی ہے۔ ابھی صبر کریں تھوڑے عرصے میں صورتحال بہتر ہوگی تو دیگر اشیا کی کلیئرنگ بھی شروع ہوگی۔
اگر پاکستان کی بندرگاہوں سے سامان کلیئر نہیں ہورہا تو امپورٹڈ اشیا مارکیٹ میں کہاں سے آرہی ہیں؟
کراچی بولٹن مارکیٹ میں کام کرنے والے ایک کھیپیے نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کی مارکیٹ میں اس وقت حوالہ ہنڈی کا کام عروج پر چل رہا ہے۔ پڑوسی ممالک سے سامان سمگل ہوکر پاکستان پہنچ رہا ہے۔ ان میں گاڑیوں کے پارٹس، ٹیکسٹائل مشینیں، کپڑے، جوتے، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات سمیت دیگر سامان شامل ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ اس مال کی مارکیٹ میں قیمت کم ہے۔ کیونکہ اس کی امپورٹ پر ڈیوٹی سمیت دیگر چارچز نہیں ہیں اس لیے یہ قانونی طریقے سے منگوائی گئی اشیا کے مقابلے میں سستا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس سامان کی ادائیگی بھی پاکستانی روپے میں ہوتی ہے اور کیش کی صورت میں ہوتی ہے اس لیے خریدار کو بھی سامان کی ادائیگی میں مشکل نہیں ہوتی اور ریٹ کم ہونے کی وجہ سے اس کا منافع بھی بڑھ جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً ایک سال سے امپورٹ پر غیر اعلانیہ پابندی ہے، لیکن ہر ماڈل کی گاڑی کے سامان سے لے کر دیگر ضرورت کی اشیا مارکیٹ میں دستیاب ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان، محکمہ کسٹمز اور کراچی کی بندرگاہ پر کام کرنے والے اداروں کا دعویٰ ہے کہ ملک میں درآمدی اشیا کی کلئیرنگ پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ضروری دستاویزات مکمل ہونے پر سامان کلیئر کیا جارہا ہے۔

شارق امین فاروقی نے کہا کہ سامان سے بھرے کنٹینر کراچی شہر سمیت پورے ملک میں جاتے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

اگر روزانہ کی بنیاد پر سامان کلیئر ہورہا ہے تو پھر پورٹ پر معمول سے زیادہ کنٹینرز کیوں موجود ہیں؟
کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ترجمان شارق امین فاروقی نے اس بارے میں اردو نیوز کو بتایا کہ کراچی کی بندرگاہوں پر کنٹینرز ہینڈلنگ کا ایک نظام ہے۔ ایک جہاز سے آنے والے کنٹینر کو آف لوڈ کیا جاتا ہے۔ اس کی کلیئرنگ کا ایک پروسیس ہے جس کے بعد پورٹ سے کنٹینر کو ریلیز کیا جاتا ہے۔ سامان سے بھرے کنٹینر کراچی شہر سمیت پورے ملک میں جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سامان منگوانے والے اپنے شہر میں کنٹینر سے سامان نکالتے ہیں اور خالی کنٹینرز واپس بھیج دیے جاتے ہیں۔ لیکن اس پورے عمل میں کئی کئی دن لگتے ہیں اور اتنے عرصے میں یہ کنٹینر لانے والا جہاز واپس چلا جاتا ہے اور خالی کنٹینرز یارڈ میں رکھ لیے جاتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں پاکستان کی بندرگاہوں پر کنٹینرز اترتے ہیں اس میں سے کئی کنٹینز یہاں رکے رہتے ہیں اس لیے پورٹ پر کنٹینرز زیادہ دکھائی دیتے ہیں یہ ایک معمول کی پریکٹس ہے۔
ترجمان سٹیٹ بینک آف پاکستان عابد قمر نے اردو نیوز کو بتایا کہ مرکزی بینک نے ایک پالیسی واضح کردی ہے۔ جس کے تحت پرائیویٹ بینک خود سے ڈالر ارینج کرکے ایل سی کھول سکتے ہیں۔ اس فیصلے بعد یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی بینک ایل سی کھولنے میں رکاوٹ ہے۔ تمام بینک مرکزی بینک کی دی گئی ہدایات کے مطابق اپنے کسٹمرز کو سہولیات فراہم کرنے کے پابند ہیں۔
کراچی کی بندرگاہوں پر موجود سامان کی کلیئرنگ کی صورتحال پر محکمہ کسٹمز کو بھیجے گئے سوالات کے جوابات تاحال نہیں دیے گئے ہیں۔

شیئر: