Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روپے کی قدر مستحکم، ’ترسیلاتِ زر میں کمی، امپورٹ بل میں اضافہ بڑا چیلنج‘

پیر سے جمعے تک انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر تقریبا دو روپے سستا ٹریڈ کرتا نظر آیا (فوٹو: اے ایف پی)
عالمی مالیاتی ادارے سے قرض کی منظوری اور دوست ممالک سے رقم منتقلی کے بعد پاکستان کی کرنسی میں رواں ہفتے استحکام دیکھنے میں آیا۔
 کاروباری ہفتے کے پہلے روز پیر سے جمعے تک انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر تقریبا دو روپے سستا ٹریڈ کرتا نظر آیا۔ رواں ہفتے کے آخری روز ایک امریکی ڈالر کی قیمت 277 روپے 50 پیسے رہی۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض سے منظوری کے بعد صورتحال میں کچھ بہتر ہوئی ہے۔ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے، روپے پر دباؤ کم ہوا ہے اور کاروباری سرگرمیاں بھی مثبت ہوتی دِکھائی دے رہی ہیں۔
تاہم اُن کا خیال ہے کہ ترسیلاتِ زر میں کمی اور امپورٹ بل میں اضافہ حکومت کے لیے بڑے چیلنج ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں ہفتے کے آغاز پر پاکستان میں انٹربینک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 270 روپے 80 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی۔
گزشتہ ہفتے کاروبار کے اختتام پر جمعے کو ڈالر انٹر بینک میں 277 روپے 90 پیسے کی سطح پر تھا۔ رواں ہفتے ڈالر کی قدر میں انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں معمولی اُتار چڑھاؤ ریکارڈ کیا گیا۔
کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعے کو مارکیٹ کے پہلے سیشن میں ڈالر کی قیمت 277 روپے 50 پیسے پر ٹریڈ کر رہی ہے۔
معاشی اُمور کے ماہر عبدالعظیم نے اس حوالے سے اُردو نیوز کو بتایا کہ پاکستانی کرنسی اور معیشت کے لیے گزشتہ دو ہفتے بہتر بھی رہے ہیں اور مشکل بھی۔
’ایک جانب آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوئے اور پاکستان کو قرض کی منظوری مل گئی تو دوسری جانب دوست ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستانی بینک میں رقم ڈیپازٹ کرا دی ہے۔‘

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض سے منظوری کے بعد صورتحال میں کچھ بہتر ہوئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)

انہوں نے کہا کہ ’اس صورتحال میں ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا ہے اور پاکستانی روپے سے دباؤ بھی کسی حد تک کم ہوا ہے۔ البتہ پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ ہے کہ بیرونِ ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی رقوم یعنی ترسیلاتِ زر میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد شمار میں بتایا گیا ہے کہ اس بار بھی بیرون ملک سے پاکستان کم رقم بھیجی گئی۔ ’یہ انتہائی تشیویشناک بات ہے۔ حکومتی اداروں کو سوچنا ہوگا کہ اوورسیز پاکستانی ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘
عبدالعظیم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو اپنے امپورٹ بِل میں بھی کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ’کچھ عرصے سے حکومت کی جانب سے امپورٹ پر سختی کی جا رہی ہے لیکن اب بھی کئی ایسے شعبے موجود ہیں جہاں سے پیسے بچائے جاسکتے ہیں۔‘
سینیئر صحافی حارث ضمیر نے اُردو نیوز سےگفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے پاس اب ایک بار پھر موقع ہے کہ وہ ملکی معیشت کو بہتر سمت میں چلا سکے۔ ’عالمی مالیاتی ادارے سے معاملات طے ہو گئے ہیں جبکہ دوست ممالک بھی ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے میں اگر معاشی معاملات کو بہتر کرنے کے لیےموثر پالیسی مرتب کی جائے تو پاکستان اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو طے کرنا ہوگا کہ اپنے اخراجات کم کرنے ہیں اور آمدنی میں اضافہ کرنا ہے۔ اس حوالے سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا جانا چاہیے تاکہ ملک میں برائے راست سرمایہ کاری آئے۔ سمال کارٹیج انڈسڑی کسی بھی ملک کی معیشت میں نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ اس جانب بھی توجہ دینا ہو گی۔‘
حارث ضمیر کے بقول پاکستان اپنی عام ضرورت کی اشیا اگر خود بنانے کی کوشش کرے گا تو معیشت کا پہیہ چلے گا، لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملیں گے۔ زرعی شعبے سے لے کر انفارمیشن ٹیکنالوجی تک کے شعبے میں پاکستان کو اپنی پالیسی مرتب کرنا ہوگی تاکہ برائے راست آمدنی کی مد میں ملک میں پیسے آئیں۔‘
یاد رہے کہ رواں ہفتے سٹیٹ بینک کی جانب سے بیرون ممالک سے بھیجی گئی رقوم کی تفصیلات جاری کی گئی تھیں۔ ان تفصیلات کے مطابق جون 2023 میں کارکنوں کی ترسیلاتِ زر کی مد میں مجموعی طور پر 27 ارب ڈالر موصول ہوئے جو مالی سال 2022 کے مقابلے میں 13 اعشاریہ 6 فیصد کم ہیں۔
جون 2023 میں ترسیلاتِ زر کی مد میں سب سے زیادہ رقم سعودی عرب سے پاکستان بھیجی گئی جو515 اعشاریہ 1 ملین ڈالر تھی۔

شیئر: