Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کو لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد کیوں لایا جا رہا ہے؟

عدالتی حکم کے بعد عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں سزا سنائے جانے کے بعد لاہور سے گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے جہاں سے انہیں اڈیالہ جیل راولپنڈی منتقل کر دیا جائے گا۔
اسلام آباد کی سیشن عدالت نے عمران خان کو توشہ خانہ فوجداری کیس میں تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناتے ہوئے اسلام آباد پولیس کو ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا۔
عدالتی حکم کے بعد عمران خان کو زمان پارک سے گرفتار کر کے اسلام آباد منتقل کیا جا رہا ہے، اور اس حوالے سے تمام قانون تقاضے پورے کیے جا رہے ہیں۔
اس صورت حال میں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ عمران خان کو لاہور سے گرفتار کیا ہے تو انہیں لاہور کی کیمپ جیل یا کوٹ لکھپت جیل میں کیوں نہیں رکھا جاتا؟ اس حوالے سے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عمران خان کا کیس اسلام آباد کی عدالت میں تھا، اس لیے ان کو گرفتار کر کے قریب ترین اڈیالہ جیل میں منتقل کرنا قانونی تقاضا ہے۔ بعدازاں جیل انتظامیہ انہیں اپنی مرضی سے یا پھر عمران خان کی درخواست پر عدالت انہیں ان کی مرضی کی جیل میں منتقل کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
ایڈووکیٹ امجد سرفراز نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ عدالتی نظام کے مطابق جب جج نے سزا سنائی تو اس وقت ملزم کا عدالت میں موجود ہونا لازمی تھا، لیکن عدالت کے بلانے کے باوجود اگر وہ نہیں آئے تو عدالت کی صوابدید تھی کہ وہ کیس ملتوی کر کے ملزم کو پیش ہونے کا موقع دیتی یا اس کی غیرموجودگی میں سزا سناتی۔
’عدالت نے دوسرے آپشن پر عمل کیا اس لیے سزا سنائے جانے کے بعد عدالت جس صوبے یا ضلع میں موجود ہو اس کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اس فیصلے پر عمل درآمد کرائے۔‘
ایڈووکیٹ امجد سرفراز کے مطابق عدالتی فیصلے میں اسلام آباد پولیس کو گرفتاری کا حکم دیا گیا تھا اس لیے انہوں نے گرفتار کرنا تھا۔ قانون کے مطاںق اسلام آباد پولیس اگر کسی مجرم کو گرفتار کرتی ہے تو وہ اسے اڈیالہ جیل منتقل کرنے کی پابند ہے۔

ماضی میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کو ان کی عدالت میں عدم موجودگی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی تھی۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

قانونی ماہر شعیب گجر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اڈیالہ جیل کے بجائے کسی اور جیل میں سزا پوری کرنا چاہیں یا ضمانت ہونے تک کسی اور جیل میں رہنا چاہیں تو وہ متعلقہ عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ ماضی قریب میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کو ان کی عدالت میں عدم موجودگی میں ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی تھی۔ جس کے بعد نواز شریف اور مریم نواز لاہور ایئرپورٹ پر اترے تھے اور انہیں وہاں سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا تھا۔ وہ دونوں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت تک اڈیالہ میں قید رہے تھے۔
دوسری جانب اسلام آباد کی احتساب عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو سزا سنائی تو وہ اس وقت عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے اسی وقت عدالت سے استدعا کی کہ انھیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا جائے تو عدالت نے ان کی درخواست قبول کرتے ہوئے انہیں لاہور بھیج دیا تھا۔

شیئر: