پاکستان کے وفاقی ادارہ شماریات کی جانب سے نئی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق پاکستان کی مجموعی آبادی 24 کروڑ 14 لاکھ 99 ہزار431 تک پہنچ گئی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق پاکستان کی دیہی آبادی کا حجم 14 کروڑ 77 لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ شہری آبادی 9 کروڑ 37 لاکھ 50 ہزارسے تجاوز کر گئی ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی میں اضافے کی شرح 2.55 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
مزید پڑھیں
-
بی این پی نے نئی مردم شماری کے نتائج مسترد کر دیےNode ID: 785326
گذشتہ ہفتے وزیراعظم شہباز شریف نے جب نئی مردم شماری پر انتخابات کرانے کا بیان دیا تو وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اس پر سخت رد عمل دیتے ہوئے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس کی مخالفت کرنے کا اعلان کیا۔
پیپلز پارٹی نے بحیثیت جماعت اسے انتخابات ملتوی کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ نئی مردم شماری غیر آئینی اور متنازع ہے اس لیے انتخابات پرانی مردم شماری پر اور آئین میں دیے گئے ٹائم فریم کے مطابق ہی ہونے چاہیئں۔
سنیچر کے روز جب مردم شماری کی مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں منظوری کے حوالے سے حکومتی اعلامیہ سامنے آیا تو مردم شماری کے نتائج کی متفقہ طور منظوری ایک حیران کن خبر تھی۔ کیونکہ وزیر اعلیٰ سندھ متعدد مرتبہ یہ کہہ چکے تھے کہ سندھ موجودہ مردم شماری کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اچانک سے نئی مردم شماری کے نتائج کو نہ صرف منظور کرنے کے لیے تیار ہوئی بلکہ مشترکہ مفادات کونسل میں وزیراعلیٰ سندھ کے ساتھ ساتھ اپنے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ کی نمائندگی ہونے کے باوجود ووٹ دے کر اس کی متفقہ منظوری کی راہ بھی ہموار کی۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36516/2023/census_afp_5.jpg)
اس حوالے سے اردو نیوز سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی موجودہ مردم شماری کو غیر آئینی سمجھتی تھی۔ اس میں سندھ کی تین کروڑ آبادی کم کی گئی ہے۔ جس مشترکہ مفادات کونسل میں دو نگران وزرائے اعلیٰ ہوں اس کو مردم شماری کی منظوری کا اختیار نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے صرف دو وجوہات کی بنیاد پر مردم شماری کی منظوری کے لیے ووٹ دیا۔ پہلی یہ کہ انتخابات ملتوی کرنے کی سازش کو ناکام بنایا جائے اور دوسرا یہ کہ ہمارے پاس اس کی مخالفت کرنے کے آپشنز ہی انتہائی محدود تھے۔ اگر ہم عدالت جاتے تو معاملہ لمبا ہو جاتا اور انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے جس کا الزام ہمارے اوپر آتا۔
’وزیراعلیٰ سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں بھی تحفظات کا اظہار کیا جبکہ اس معاملے پر وزیراعظم کو پہلے ہی خطوط لکھے جا چکے ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ ’ہمارے اوپر مقتدر حلقوں کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں تھا اور نہ ہی اس سلسلے میں ان سے کوئی بات چیت ہوئی ہے۔ وہ کم ہی ایسی باتیں کرتے ہیں بس کچھ لوگ کندھوں پر ہاتھ مار کر ان کا نام استعمال کرتے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ مردم شماری کا گزٹ نوٹیفکیشن ہونے کے بعد حلقہ بندیاں بھی ہونی ہیں تو اب تو انتخابات ویسے ہی تاخیر کا شکار ہوجائیں گے تو اس صورت حال میں پیپلز پارٹی کا کیا موقف ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے انتخابی اصلاحات بل میں اس کا حل نکال لیا گیا ہے۔
’پہلے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کرتے وقت ضلع حدود آڑے آتی تھیں اور انھیں ہر حلقے میں ووٹ برابر کرتے وقت مشکل آتی تھی اور حلقہ بندیوں میں ٹائم لگتا تھا۔ نئے قانون کے مطابق اگر کسی ضلع میں کسی حلقے میں ووٹ کم یا زیادہ ہیں تو ان میں کچھ ووٹ دوسرے ضلع کے حلقے میں شامل کر کے تعداد برابر کی جا سکتی ہے۔ اس لیے 90 روز میں انتخابات کے انعقاد میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/August/36516/2023/679735_52228048.jpg)