Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

وزیراعظم کا نئی مردم شماری پر انتخابات کا بیان، کیا الیکشن وقت پر نہیں ہوں گے؟

شہباز شریف کے بیان پر پیپلز پارٹی کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے (فوٹو: حکومت پاکستان ٹوئٹر)
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے نئی مردم شماری پر انتخابات سے متعلق بیان نے نہ صرف ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ حکمران اتحاد کے اندر بھی حکومت کے خاتمے سے قبل ہی دراڑیں پڑنا شروع ہو گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 60 دن یا 90 دن کے اندر انتخابات کے انعقاد پر بادل منڈلانے لگے ہیں۔ 
شہباز شریف کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکمران اتحاد کے درمیان نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے بات چیت حتمی مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے اب تک کئی متضاد خبریں سامنے آچکی ہیں جن میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو نگراں وزیراعظم بنانے کی خبر بھی شامل تھی۔ اس تجویز پر پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادیوں کی جانب سے شدید ردعمل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ 
اب کی بار جب شہباز شریف نے یہ بیان دیا ہے تو پیپلز پارٹی کی جانب سے اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلٰی سندھ نے ایک انٹرویو میں نئی مردم شماری اور اس پر انتخابات کے وزیراعظم کے بیان پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ صوبہ سندھ کو وفاق سے اس معاملے پر بہت سے تحفظات ہیں اور مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں ان تحفظات پر کھل کر بات ہوگی۔
خیال رہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے اتفاق رائے سے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی صوبہ کسی فیصلے پر اتفاق نہیں کرتا تو وہ فیصلہ قابل عمل نہیں سمجھا جاتا۔ 
وزیراعظم کی جانب سے نئی مردم شماری پر انتخابات کرانے کے اعلان کے ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس حوالے سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ حکمران اتحاد میں تمام سیاسی جماعتیں یہ چاہتی ہیں کہ انتخابات میں جتنی تاخیر ممکن ہو وہ کی جائے تاکہ پاکستان تحریک انصاف کو سیاسی عمل سے باہر کیا جائے اور موجودہ حکومت کی کارکردگی سے عوام کی توجہ ہٹنے کا انتظار کیا جائے۔ 
سیاسی تجزیہ نگار رسول بخش رئیس نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ موجودہ حکمران اتحاد کی یہ خواہش ہے کہ انتخابات میں تاخیر کی جائے تاکہ جو کام انہوں نے شروع کیے ہیں وہ مکمل کیے جا سکیں۔  جن میں سب سے پہلا کام مقدمات کا خاتمہ ہے۔ مسلم لیگ ن اس بات کا انتظار کرے گی کہ نواز شریف کے مقدمات بھی ختم ہوں۔ 
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی دوسری بڑی کوشش یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو کسی طریقے سے سیاسی عمل سے باہر کیا جائے یا کم از کم عمران خان کو ناہل کر کے انتخابات میں سیاسی فائدہ حاصل کیا جائے۔ اگر یہ کام نہیں ہوتے تو غالب امکان یہی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہے اور یہ خدشہ حکمران اتحاد کو انتخابات میں جانے سے روک رہا ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ ان کی شدید خواہش ہو گی کہ نگراں حکومت ان کی مرضی کے تابع رہے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ ایسا ہوگا اور جونہی حکومت تبدیل ہوگی تو صورتحال میں واضح تبدیلیاں نظر آئیں گی۔ 
تجزیہ کار افتخار احمد نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ مقتدر حلقے یہ طے کر چکے ہیں کہ انتخابات مارچ 2024 میں ہوں گے۔ اس کے لیے مردم شماری ملکی حالات یا کوئی بھی قدم اٹھانا پڑا تو وہ اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن مقررہ وقت پر انتخابات کا انعقاد ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ شہباز شریف کا بیان بھی اسی تناظر میں سامنے ایا ہے۔ 
پارلیمانی امور کے ماہر افتخار اللہ بابر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم کے بیان سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت خود جلد انتخابات نہیں چاہتی۔ آئینی مدت سے چند دن قبل اسمبلی توڑ کے 90 دن میں انتخابات کرانے کا ارادہ تو سامنے آیا تھا، لیکن نئی مردم شماری پر انتخابات کی خواہش نئی بات ہے۔ اگر ایسا ہوا تو سب سے پہلے نئی مردم شماری کو مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرانا ہوگا۔ 

افتخار اللہ بابر نے کہا کہ انتخابات کی تاریخ سامنے نہیں ہوگی تو سیاسی انتشار پھیلے گا (فوٹو: اے ایف پی)

اگر مشترکہ مفادات کونسل نے اس کی منظوری دے دی تو پھر نئی حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو 40 50 دن درکار ہوں گے۔ پھر جو نئے قوانین الیکشن کے حوالے سے پاس ہوئے ہیں ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے مزید وقت لگ جائے گا۔ ایسے میں لگ رہا ہے کہ انتخابات کا دور دور تک کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ اس سے تمام سیاسی جماعتوں کا نقصان ہوگا۔ تحریک انصاف تو پہلے ہی اسمبلیوں سے باہر ہے۔ چند دن بعد یہ بھی اسمبلیوں سے باہر ہو جائیں گے۔ انتخابات کی تاریخ سامنے نہیں ہوگی تو سیاسی انتشار پھیلے گا۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کریں گی۔ لیکن کوئی پارلیمانی فورم موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کی آواز بھی نہیں سنی جائے گی۔ 
انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں فوری طور پر عام انتخابات کے لیے ایک تاریخ پر اتفاق کریں اور آئینی مدت کے اندر ہی انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنائیں اسی میں سب کا فائدہ ہے اور ملک کا بھی مفاد اسی میں مضمر ہے۔

شیئر: