خیبر کی علی مسجد میں دھماکہ کرنے والا خودکش بمبار کون تھا؟
خیبر کی علی مسجد میں دھماکہ کرنے والا خودکش بمبار کون تھا؟
بدھ 9 اگست 2023 17:24
فیاض احمد -اردو نیوز، پشاور
مبینہ سہولت کار ابوذر کے مطابق خودکش حملہ آور کی 20 دن بعد شادی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع خیبر میں واقع علی مسجد میں 25 جولائی کو پولیس سرچ کے دوران ایک خودکش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا تھا جس کے نتیجے میں ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی ہلاک ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد حملہ آور کے قریبی ساتھی اور سہولت کار ابوذر عرف عبدالعزیز کو سی ٹی ڈی نے گرفتار کیا جن کے مطابق حملہ آور افغان طالبان کا سپاہی تھا۔
خودکش حملہ آور کے مبینہ سہولت کار ابوذر 22 سالہ نوجوان ہیں جس کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے۔
ابوذر کا کہنا ہے کہ وہ مدرسے میں آٹھویں درجے کا طالب علم ہے اور ان کے والد اور گھر والوں کو نہیں معلوم کہ وہ ٹی ٹی پی کے لیے کام کرتے ہیں۔
محکمہ انسداد دہشت گردی خیبر پختونخوا کے ڈی آئی جی خالد سہیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ علی مسجد حملے کے سہولت کار ابوذر سمیت آٹھ ملزمان گرفتار کیے جا چکے ہیں۔
ان کے مطابق ابوذر کی گرفتاری کے بعد اس سے ایک خودکش جیکٹ بھی برآمد کی گئی ہے۔ ’مجموعی طور پر اس کارروائی میں دو عدد کلاشنکوف، ایک عدد ایم فور رائفل، ایک خودکش جیکٹ، ایک پستول، مختلف بور کے کارتوس، آئی ای ڈی بنانے کے سامان سمیت مختلف دستاویزات برآمد کی گئی ہیں۔‘
خودکش حملہ اور کون تھا؟
ابوذر کے مطابق حملہ آور کا نام انصار تھا جو افغانستان سے 22 جولائی کو غیر قانونی طریقے سے لنڈی کوتل داخل ہوا تھا۔ ان کے مطابق انصار کی عمر 22 سال تھی اور وہ افغانستان میں افغان طالبان کے ساتھ بطور سپاہی ملازمت کرتا تھا۔
ابوذر نے یہ بھی انکشاف کیا کہ انصار کی 20 دن بعد شادی تھی لیکن وہ تنظیم کی ہدایت پر خودکش حملہ کرنے خیبر پہنچ گیا تھا۔
ڈی آئی جی سہیل خالد کا کہنا ہے کہ علی مسجد حملے کے بعد ٹی ٹی پی نے اس کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا جو کہ جھوٹا ثابت ہوا۔
پولیس افسر کے مطابق اس حملے کے پیچھے ٹی ٹی پی ہی تھی جس کی گواہی ان کے گرفتار کارندے خود دے رہے ہیں۔
خودکش حملہ آور کا ٹارگٹ کون تھا؟
مبینہ سہولت کار کے مطابق 25 جولائی کو وہ انصار کو لے کر سلطان خیل سے کیری ڈبہ گاڑی میں علی مسجد کی جانب گئے۔
’علی مسجد پہنچتے ہی مقامی افراد کو ہم پر شک ہوا اور انہوں نے ہم پر فائرنگ کردی۔ میں بھاگ کر آگے نکل گیا اور انصار مسجد کے اندر چلا گیا۔ مجھے مقامی افراد نے پکڑ لیا جبکہ انصار نے مسجد میں خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔‘
مبینہ سہولت کار کے مطابق حملہ آور کا ٹارگٹ پولیس کی موبائل تھی مگر مقامی افراد کو ان پر شک ہوا جس کے نتیجے میں وہ ہدف تک نہ پہنچ سکے۔
افغانستان میں دہشت گردوں سے کیسے رابطہ ہوا؟
ابوذر کے مطابق ان کا تعلق افغان طالبان سے تھا لیکن جب گذشتہ سال جنوری میں کاشف نامی لڑکے سے ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے ٹی ٹی پی جوائن کرنے کی دعوت دی اور میں نے شمولیت اختیار کرلی۔
ابوذر کے مطابق ان کے بیشتر ساتھی پہلے افغان طالبان کے ساتھ تھے جو اب ٹی ٹی پی کے لیے کام کر رہے ہیں ۔
واضح رہے کہ 25 جولائی کو علی مسجد کے قریب مشکوک افراد کی اطلاع پر ایڈیشنل ایس ایچ او عدنان آفریدی نے خودکش حملہ آور کو گھیر لیا تھا جو بھاگ کر مسجد میں چھپ گیا تھا۔ جب ایڈیشنل ایس ایچ او سرچ کے لیے مسجد کے قریب پہنچے تو خودکش بمبار نے خود کو دھماکے سے اُڑا دیا تھا جس میں عدنان آفریدی ہلاک اور علی مسجد مکمل منہدم ہوگئی تھی۔
اس واقعے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی کے ترجمان نے مسجد دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے اس کارروائی سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق لنڈی کوتل میں ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں ٹی ٹی پی ملوث ہے۔