Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جھل مگسی میں قتل: ’بیٹیوں سے مقتول باپ کی میت چھین کر زبردستی تدفین‘

امداد جویو کو جھل مگسی میں زمین کے ایک تنازع پر قتل کردیا گیا تھا (فوٹو: نذر بلوچ ٹوئٹر)
’پولیس نے ایمبولنس اور گاڑیاں چھین لیں تو ہم بیٹیوں نے بااثر جاگیرداروں کے ہاتھوں قتل ہونے والے کاشت کار والد کی میت کو خود کندھا دیا اور کئی کلومیٹر پیدل لے کر چلیں، لیکن پولیس اور انتظامیہ نے ہمیں میت کے ہمرہ احتجاج کرنے بھی نہیں دیا، اور لاٹھیاں برسا کر والد کی میت چھین لی اور احتجاج کیے بغیر تدفین کرنے پر مجبور کیا۔‘
یہ کہنا ہے ارباب جویو کا جن کے والد امداد جویو کو دو روز قبل بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں زمین کے ایک تنازع پر قتل کردیا گیا تھا۔
ارباب جویو کا کہنا ہے کہ ’میرے والد کو وفاقی، سندھ اور بلوچستان حکومتوں میں شامل طاقتور جاگیرداروں اور سرداروں سے خطرہ تھا، ہم نے اسلام آباد جاکر بھی احتجاج کیا، لیکن بار بار اپیل کے باوجود تحفظ فراہم نہیں کیا، بالآخر والد کو قتل کردیا گیا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بااثر لوگوں کے دباؤ پر پہلے جھل مگسی کی انتظامیہ نے ہمیں پورا دن گھمانے کے بعد رات کو لاش حوالے کی اور جھل مگسی سے ڈویژن ہیڈ کوارٹر ڈیرہ مراد جمالی جاکر احتجاج کرنے سے روک دیا۔ وہ ہمیں ڈیرہ مراد جمالی کے بجائے زبردستی جھل مگسی سے اوستہ محمد لے جاکر والد کی فوری تدفین کے لیے مجبور کرتے رہے تاکہ کوئی احتجاج نہ ہو۔‘
تاہم ڈپٹی کمشنر جھل مگسی محمد رمضان پھلال کہتے ہیں کہ ’بارشوں اور حالیہ سیلاب کی وجہ سے علاقے کو جانے والی سڑکیں خراب ہیں۔ متاثرہ علاقے تک گاڑی جانے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اسسٹنٹ کمشنر اور لیویز اہلکاروں نے کئی کلومیٹر پیدل جاکر لاش نکالی جس کی وجہ سے تاخیر ہوئی، جبکہ جھل مگسی سے نوتال ڈیرہ مراد جمالی جانے والا راستہ بارشوں کی وجہ سے 15 سے 20 کلومیٹر کٹا ہوا ہے۔‘
ان کے مطابق ’یہ چار پانچ خواتین تھیں اور ان کے ہمراہ صرف ایک مرد تھا۔ میت کے ہمراہ خراب راستے سے پیدل جانا ممکن نہیں تھا، اس لیے انہیں سرکاری ایمبولنس لیویز کی سکیورٹی میں اوستہ محمد تک پہنچایا گیا کیونکہ ان کا آبائی گھر بھی وہیں ہے۔‘
ارباب جویو کے مطابق ’ہم تدفین کے بجائے میت کے ہمراہ ڈیرہ مراد جمالی جاکر احتجاج کرنا چاہتے تھے جو ہمارا قانونی حق تھا، کیونکہ جھل مگسی میں موجود ہمارے باقی بھائیوں اور رشتہ داروں کی جان کو بھی خطرہ ہے، اور قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جا رہی۔ اوستہ محمد اور جعفر آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے ہمیں احتجاج سے روکنے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’ہم سے میت چھینی گئی، ہم نے واپس میت لے کر رات بھر اوستہ محمد پولیس تھانے کے سامنے احتجاج کیا۔ صبح ہم نے ڈیرہ مراد جمالی جانے کی کوشش کی تو پولیس نے ہم سے ایمبولنس اور گاڑیاں چھین لیں۔ ہم مجبور ہوکر والد کی میت کو پیدل لے کر چلنا شروع ہوگئے۔ ہمارے بھائی زمینوں پر موجود ہیں اور ہم پانچ بہنیں اپنے والد کی میت کے ہمراہ احتجاج میں شریک تھیں۔ پولیس کی جانب سے رکاوٹوں کے باوجود ہم بہنیں، باقی خواتین اور مرد سخت گرمی میں چار پانچ کلومیٹر پیدل چلے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کیٹل فارم اور محبت شاخ کے مقامات پر چار اضلاع کی پولیس لاکر جمع کی گئی جس نے ہم پر لاٹھی چارج کیا۔ دس سے زائد لوگ زخمی ہوئے۔ احتجاج میں کچھ سوشل ایکٹویسٹ بھی شریک تھے ان پر بھی تشدد کیا گیا۔ موبائل فون توڑے اور چھینے گئے۔ مردوں کو گرفتار کیا گیا تو ہم بہنوں نے والد کی میت کو کندھا دیا اور انہیں آگے لے جانے کی کوشش کی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پولیس نے ہم خواتین پر بھی ڈنڈے برسائے اور میت کا احترام تک نہیں کیا۔ پولیس نے بے حسی اور لاقانونیت کی انتہا کی۔‘
احتجاج میں شریک سوشل ایکٹویسٹ ذوالفقار علی ابڑو نے بتایا کہ ’اسسٹنٹ کمشنر نے ایمبولنس کی چابی چھین لی جس کی وجہ سے ہم میت کو پیدل لے کر کئی کلومیٹر تک چلے۔‘
ان کا کہنا تھاکہ جعفر آباد کی انتظامیہ اور پولیس نے سفاکیت کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے خواتین، بچوں اور میت لے جانے والوں پر لاٹھیاں برسائیں ان کے موبائل فون توڑے۔ میری ایک انگلی بھی ایس ایچ او کے تشدد سے ٹوٹ گئی۔‘
واقعہ کے خلاف کوئٹہ میں بھی احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف سیاسی و سماجی تنظیموں کے رہنماؤں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرکت کی۔ سماجی کارکن حمیدہ نور بھی اس احتجاج میں شریک تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کسانوں اور جاگیرداروں کے درمیان جنگ ہے جس میں انتظامیہ اور پوری حکومتی مشنری سرداروں اور جاگیرداروں کے ساتھ ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’امداد جویو کسان تھے جو اپنے باپ دادا کی زمینوں پر قبضہ کے خلاف لڑرہے تھے اور اس پاداش میں مارے گئے۔ مارنے کے بعد ان کے بیٹیوں کو احتجاج کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ بیٹیاں باپ کی میت کو کندھا دے رہی تھیں تو ان سے میت چھین لی گئی۔ یہ پولیس کی بے شرمی کی انتہا ہے۔‘
ارباب جویو کے مطابق ’پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرکے اور میت چھین کر ہمیں زبردستی والد کی تدفین پر مجبور کیا۔ میرے بھائیوں اور خاندان کے باقی لوگوں کی جانوں کو اب بھی خطرہ ہے۔ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔‘
امداد جویو کے قتل اور اس کے بعد بیٹیوں کی جانب سے اپنے والد کے میت کو کندھا دینے اور پولیس کی جانب سے مظاہرین بالخصوص میت کے ہمراہ احتجاج کرنے والی خواتین پر تشدد کی ویڈیوز اور تصاویر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر وائرل ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین نے پولیس پر سخت تنقید کی ہے۔
آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کی تحقیق کی جارہی ہے اگر ایسا ہوا تو متعلقہ حکام کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
کمشنر نصیرآباد ڈویژن بشیر احمد بنگلزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ اوستہ محمد میں میت کے ہمراہ موجود لوگوں نے ایمبولنس کے ڈرائیور پر پستول تان کر انہیں زبردستی راستہ بدلنے کا کہا۔ ’ہم نے انہیں احتجاج سے نہیں روکا ان کا منصوبہ تھا کہ میت کو لے جاکر کوئٹہ سکھر شاہراہ بند کر دیں۔ یہ سندھ کو بلوچستان سے ملانے والی اہم شاہراہ ہے جس پر روزانہ سینکڑوں گاڑیاں اور ہزاروں مسافر گزرتے ہیں۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ کوئی سڑک بند کریں، اس لیے انہیں آگے جانے سے روکا گیا۔‘
امداد جویو کو کیسے اور کہاں قتل کیا گیا؟
ڈپٹی کمشنر جھل مگسی محمد رمضان پھلال نے اردو نیوز کو بتایا کہ امداد جویو جھل مگسی کے علاقے سب تحصیل میر پور میں جویو خاندان اور راہیجہ مگسی خاندان کے درمیان جاری زمینی تنازع کی وجہ سے قتل ہوئے۔ دونوں گروہوں کے درمیان اس سے پہلے بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا ہے جس میں امداد جویو کی ایک بیٹی زخمی ہوئی تھی، جبکہ دوسرے گروہ کے بھی دو لوگ زخمی ہوئے۔
انہوں نے بتایا کہ امداد جویو اپنی زمینوں پر موجود تھے۔ زمین کے درمیان نہر گزرتی ہے جو حالیہ سیلاب کی وجہ سے پانچ ہزار فٹ تک پھیل گئی ہے۔ اس نہر کو عبور کرنا مشکل ہے، اس لیے دونوں جانب بیٹھے گروہ دور سے ہی ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس روز بھی نہر کی دوسری جانب موجود مخالف گروہ کی طرف سے فائرنگ کی گئی جس میں سے ایک گولی امداد جویو کو لگی اور ان کی موت ہوگئی۔ انہوں نے بتایا کہ قتل میں ملوث ملزمان کی شناخت کرلی گئی ہے ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
امداد جویو کی بیٹی ارباب جویو کا کہنا ہے کہ ’ہم پر گزشتہ دو تین روز سے مسلسل فائرنگ کی جارہی تھی۔ ہم نے بار بار انتظامیہ کو اپیل کی کہ فائرنگ رکوانے کے لیے لیویز اور انتظامیہ کو بھیجا جائے۔ والد نے سوشل میڈیا پر اپنے تحفظ کے لیے ویڈیو پیغام بھی جاری کیا، لیکن کسی نے ایک نہیں سنی۔‘
امداد جویو اور زمین کا تنازع
امداد جویو کسان اتحاد کے رہنما تھے اور وہ بلوچستان کے ضلع اوستہ محمد کے رہائشی تھے۔ ان کی آبائی زمینیں اوستہ محمد سے ملحقہ ضلع جھل مگسی کی تحصیل گنداواہ کی سب تحصیل میر پور کے موضع کرمانی میں تھیں۔ امداد جویوکی بیٹی ارباب جویو کا دعویٰ ہے کہ ان کے والد نے جھل مگسی میں بااثر راہیجہ مگسی خاندان کو 180جرب (تقریباً 90 ایکڑ) زمین فروخت کی تھی، تاہم انہوں نے اس زمین کے ساتھ ساتھ مزید 200 جرب (تقریباً100 ایکڑ) زمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرلیا۔
انہوں نے کہا کہ ’والد اور ہم بیٹیاں زمین کے اس غیر قانونی قبضے کے خلاف 2017 سے احتجاج کر رہے تھے۔ ہمارے احتجاج کرنے پر اس وقت کے اسسٹنٹ کمشنر نے ہمیں زمین کا قبضہ دلوایا، لیکن اس کے بعد ہم پر حملے شروع ہوگئے۔ میری ایک بہن کو اغوا کرکے کئی ماہ تک نجی جیل میں رکھا گیا۔ گذشتہ ماہ بھی ہم پر حملہ کیا گیا جس میں چھوٹی بہن خیر النساء زخمی ہوئی۔‘
 انہوں نے کہا کہ ’ہم نے اس ظلم کے خلاف کوئٹہ اور اسلام آباد میں جاکر احتجاج ریکارڈ کرایا۔ عدالت اور ہر فورم پر گئے، لیکن ہماری کوئی داد رسی نہیں ہوئی۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’مخالف گروہ کو جھل مگسی کے بااثر نواب اور سردار خاندان کی حمایت حاصل ہے جو وفاقی، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں میں شامل ہیں اس وجہ سے انتظامیہ، پولیس اور لیویز ہماری کوئی مدد نہیں کررہی بلکہ ان کے دباؤ میں آکر ہمارے خلاف انتقامی کارروائیاں کی جارہی ہیں۔‘
ان کے مخالف راہیجہ مگسی خاندان کے علی گل مگسی نے گذشتہ ماہ کوئٹہ میں پریس کانفرنس میں جویو خاندان کے الزامات مسترد کیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’امداد جویو نے 1994 میں زمین ہمیں فروخت کیں جس کا ہمارے پاس ریونیو ریکارڈ بھی موجود ہے۔ امداد جویو نے بیس پچیس سال بعد 2018ء میں دوبارہ یہاں آکر کیمپ لگایا اور زمین پر زبردستی قبضہ کرلیا۔ بعد ازاں دباؤ ڈالنے کے لیے اپنی ایک بیٹی کے اغوا کا جھوٹا کیس ہم پر بنایا جو عدالت میں غلط ثابت ہوا۔‘
ان کے مطابق ’اس کے بعد ایک جرگے نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ کیا، لیکن انہوں نے فیصلہ نہیں مانا اور زبردستی آکر سرسوں کی فصل کاشت کی اور فصل کی کٹائی کے وقت مزاحمت کرنے پر فائرنگ کرکے ہمارے دو افراد کو زخمی کیا۔‘
جھل مگسی کے ڈپٹی کمشنر محمد رمضان پھلال کہتے ہیں کہ یہ زمینیں 90 کی دہائی میں اس وقت فروخت کی گئیں جب یہاں صرف بارش کی پانی سے کاشت کاری کی جاتی تھی اور زمین کی قیمتیں بہت کم تھیں۔ کچھ سال پہلے جب کچھی کینال کی توسیع ہوئی اور نہری پانی پہنچا تو زمین کی قیمتیں کئی گناہ بڑھ گئیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ مشترکہ زمینیں تھیں۔ قیمتیں بڑھنے پر جویو خاندان اس بات سے مکر گیا کہ انہوں نے نہر کے قریب نہیں بلکہ دور والی زمین فروخت کی ہے جس کی وجہ سے تنازع کھڑا ہوگیا۔ عدالتوں اور جرگوں میں معاملہ گیا۔ جرگوں سے تین فیصلے جویو خاندان کے خلاف آئے، لیکن انہوں نے کوئی بھی نہیں مانا اس وجہ سے معاملہ معاملہ تصادم تک پہنچ گیا۔
ڈپٹی کمشنر کے مطابق مختلف اوقات میں یہ لوگ ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے رہے اور انتظامیہ جاکر مداخت کرکے معاملہ رکوا دیتی۔ لیویز کے لیے چوبیس گھنٹے کسی کی زمین پر پہرہ دینا مشکل ہے، لیکن اس کے باوجود جب بھی مسئلہ پیدا ہو انتظامیہ نے مداخلت کی۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ پر کسی کا دباؤ نہیں۔
ارباب جویو کا الزام ہے کہ ’اس تنازع میں نواب مگسی کے بھائی رکن قومی اسمبلی خالد مگسی ملوث ہیں۔ وہ ان کے والد کے قاتلوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔‘
اردو نیوز نے خالد مگسی سے رابطہ کرنے کی کوشش کی اور انہیں موبائل فون پر پیغامات بھی بھیجے مگر انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

شیئر: