پاکستان کی 15ویں قومی اسمبلی کو وزیراعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر صدر مملکت عارف علوی نے تحلیل کر دیا ہے جس کے بعد نگراں وزیراعظم کے تقرر کا حتمی مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف اور قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کے درمیان گذشتہ روز ملاقات ہونا تھی جو آج ہو رہی ہے۔ اس ملاقات میں نگراں وزیراعظم کے لیے مختلف ناموں پر مشاورت کی جا رہی ہے۔
بدھ کو قومی اسمبلی مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’راجا ریاض سے جمعرات کو ملاقات کروں گا۔ آئین تین دن کی مہلت دیتا ہے۔ اگر ہم فیصلہ نہ کر سکے تو معاملہ ہاؤس کو بھیج دیں گے۔‘
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مثالی تعلقات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ توقع کی جا رہی تھی کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے سے پہلے ہی نگراں وزیراعظم کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے متعدد نام زیرِ گردش ہیں، لیکن حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کسی بھی نام کے بارے میں تصدیق سامنے نہیں آئی۔
مزید پڑھیں
وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ملاقات دو مرتبہ موخر ہو چکی ہے۔ بظاہر اس ملاقات کو قائد حزب اختلاف کی مصروفیات کے باعث موخر کیا جا رہا ہے۔ لیکن قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف بیک وقت قومی اسمبلی میں موجود رہے۔ اس کے علاوہ بھی پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات نہیں ہو سکی۔
بعض حلقوں کی جانب سے اب تک سامنے آنے والے ناموں پر حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں میں اختلافات بتائے جا رہے ہیں۔ تاہم حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی جانب سے کھل کر کسی بھی نام کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔ سوائے اس کے کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام کچھ روز قبل جب وزارت عظمیٰ کے لیے سامنے آیا تو پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں نے اس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
قومی اسمبلی میں اپنے اختتامی خطاب کے دوران بھی وزیراعظم نے نگراں وزیراعظم کے تقرر کے حوالے سے اظہار خیال کیا اور کہا کہ کل راجہ ریاض سے اس معاملے پر مشاورت ہوگی اور آئین میں دیے گئے تین دنوں کے اندر کسی نام پر اتفاق کی کوشش کی جائے گی۔
وزیراعظم نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ اگر وہ اتفاق نہ کر سکے تو ایسی صورت میں معاملہ ایک بار پھر ایوان کی طرف آئے گا۔
دوسری جانب قائد حزب اختلاف راجہ ریاض نے بھی کہا ہے کہ تین دنوں میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نگراں وزیراعظم کے نام پر متفق ہو جائیں گے۔
اب تک مقامی میڈیا میں جن شخصیات کے نام وزارت عظمیٰ کے لیے سامنے آئے ہیں۔ ان میں جلیل عباس جیلانی، حفیظ شیخ ، جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی، جسٹس ریٹائرڈ خلیل الرحمن رمدے، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، گورنر سندھ کامران ٹیسوری، فواد حسن فواد اور کچھ دیگر نام بھی شامل ہیں۔ لیکن کسی بھی حکومتی اور اپوزیشن جماعت کی جانب سے کسی بھی نام کے بارے میں کسی قسم کی تصدیق سامنے نہیں آئی۔
تاہم پاکستانی مقامی میڈیا گذشتہ روز سے جلیل عباس جیلانی کو فیورٹ امیدوار قرار دے رہا ہے۔ ان کے خارجہ سروسز کے سابق ساتھی اور سابق سفیر عبدالباسط نے انھیں ٹویٹ کے ذریعے وزیر اعظم تقرری کی مبارکباد بھی دے دی ہے۔

اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف کا موقف ہے کہ ’ہم مشاورت سے ایسی شخصیت کا نام دیں گے جو سب کے لیے قابل قبول ہوگا۔‘
قائد حزب اختلاف راجہ ریاض کا کہنا ہے کہ نگراں حکومت کے لیے مہنگائی اور دیگر چیلنجز بڑے سخت امتحان ہوں گے اس لیے سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
گذشتہ سولہ ماہ کے حکومت اور اپوزیشن کے تعلقات کو سامنے رکھا جائے تو اب تک نام سامنے آ جانا چاہیے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس حوالے سے حکومت کا موقف ہے کہ اس سلسلے میں کئی دنوں سے مشاورت جاری ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری مسلسل رابطے میں ہیں، جبکہ دیگر اتحادی اور اپوزیشن جماعتوں سے مشاورت کے لیے وزیراعظم نے تین مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دے رکھی ہیں۔
تاہم باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نگراں وزیراعظم کے حوالے سے مشاورت صرف نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور مریم نواز تک محدود ہے۔ ان کے علاوہ ان جماعتوں کی دیگر قیادت آگاہ نہیں ہے۔
اس معاملے پر ن لیگی رہنما کے متعدد بیانات بھی سامنے آئے جن میں خواجہ آصف نے بھی گذشتہ روز یہ کہا تھا کہ اب تک جو نام سامنے آئے ہیں ان کے علاوہ بھی کسی شخصیت کو بطور نگراں وزیراعظم تقرر کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد نگراں وزیراعظم کے تقرر کا طریقہ تبدیل ہو چکا ہے جس کے تحت سب سے پہلے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف ایک دوسرے کو تین تین نام بھجواتے ہیں۔ دونوں ان پر مشاورت کرتے ہیں۔
آئین کے مطابق اگر قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق نہیں ہوتا تو معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں جائے گا جہاں حکومت اور اپوزیشن کی برابر نمائندگی ہو گی۔
