Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہریانہ: ہندو مسلم فسادات کے 11 دن بعد سکول کھول دیے گئے، انٹرنیٹ تاحال بند

ہندو مسلم فسادات کے گیارہ دن بعد نوح میں کرفیو میں نرمی کی گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈین ریاست ہریانہ کے ضلع نوح میں ہندو مسلم فسادات کے بعد سکول اور دیگر تعلیمی ادارے کھول دیے گئے ہیں لیکن خوف کے باعث اکثر طلبہ فی الحال گھروں میں رہنے کو ہی ترجیح دے رہے ہیں۔ 
انڈین اخبار ہندوستان ٹائمز کے مطابق 11 دن بند رہنے کے بعد گزشتہ روز جمعے کو تعلیمی ادارے کھولے گئے اور اس کے ساتھ ہی عوامی ٹرانسپورٹ کو بھی مکمل طور پر بحال کر دیا گیا تاہم انٹرنیٹ سروس فی الحال بند ہی رہے گی۔
خیال رہے ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ 31 جولائی کو ایک جلوس کے دوران ہریانہ کے ضلع نوح سے شروع ہوا تھا جو کہ دارالحکومت نئی دہلی کے قریب گروگرام تک بھی پہنچ گیا جہاں مسلح افراد کے حملے میں ایک نائب امام بھی ہلاک ہوئے تھے۔
ضلع نوح کے ڈپٹی کمشنر دھریندر کی جانب سے سے جمعرات کو آرڈر جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ علاقے میں حالات معمول پر آنے کے بعد تمام تعلیمی اداروں کو 11 اگست سے کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
آرڈر میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے جمعے سے کرفیو میں نرمی کی گئی ہے اور بینکوں کے اے ٹی ایم صبح سات سے دوپہر 3 بجے تک کھلے رہیں گے۔
ڈپٹی کمشنر کے احکامات کے مطابق صرف سنیچر کو صبح سات بجے سے شام 6 بجے تک کرفیو اٹھایا جائے گا۔
نوح فاؤنڈیشنل لٹریسی کوآرڈینیٹر کسوم ملک نے بتایا کہ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد بھی سکولوں میں طلبہ کی تعداد انتہائی کم ہے اور والدین موجودہ حالات میں بچوں کو نہیں بھیجنا چاہتے۔
انہوں نے بتایا کہ اہلکاروں کو ضلع کے تمام گاؤں میں بھیجا گیا ہے اور والدین کو صورتحال کے حوالے سے آگاہ کر کے ان کی حوصلہ افزائی کی۔
کسوم ملک کا کہنا ہے بچوں کی بھی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں لیکن ان میں سے کچھ ابھی بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔
ضلع نوح کے ایجوکیشن افسر پرامجت چاہل نے بتایا کہ سکول تو دوبارہ کھل گئے ہیں لیکن بچوں کی موجودگی صرف 20 فیصد کے برابر ہے۔

نوح میں ہونے والے فسادات میں 8 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

نوح شہر کے قریبی علاقے فیروز پور جھرکہ کے رہائشی محبوب حسین نے بتایا کہ بیوی کے اصرار پر وہ اپنی بچیوں کو سکول چھوڑنے آئے لیکن چھٹی ہونے تک باہر ہی بیٹھے رہے۔
محبوب حسین کا کہنا ہے کہ بچیوں کو سکول بھیجنے پر وہ خوفزدہ تھے لیکن اساتذہ نے بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ تمام طلبہ کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں اور پولیس اہلکار بھی سکولوں کے ارد گرد تعینات کیے گئے ہیں۔
بدھ کو ہریانہ کی کسان تنظیموں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ اپنے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی حفاظت کریں گے۔
ریاست ہریانہ کے شہر حصار میں کسان پنچایت کے رہنماؤں نے ایک بیٹھک رکھی تھی جس میں تقریباً دو ہزار ہندو، مسلمان اور سکھ  کسانوں نے شرکت کی۔
کسان پنچایت نے حکام سے اپیل کی کہ ان ملزمان کے خلاف بھی کارروائی کی جائے جنہوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر نوح میں نفرت پھیلائی اور تشدد کو فروغ دیا۔
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق ان فسادات میں اب تک تقریباً آٹھ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

شیئر: