ہریانہ میں حکام نے جلوس پر مبینہ حملے کے بعد ’غیر قانونی مکانات‘ منہدم کر دیے
جھڑپوں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کے شمالی ریاست ہریانہ میں مقامی حکام نے ان غیرقانونی مکانات کو مہندم کرنا شروع کر دیا ہے جنہیں رواں ہفتے مبینہ طور پر ہندوؤں کے ایک مذہبی جلوس پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جلوس پر مبینہ حملے کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ضلع نوح میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان جھڑپوں کے بعد گروگرام سمیت قریبی علاقوں میں بھی فسادات پھیل گئے تھے۔
مشتعل مظاہرین نے ایک مسجد اور دکانوں کو نذر آتش کیا اور کھانے پینے کی اشیا کی دکانوں میں توڑ پھوڑ کی۔
ان جھڑپوں میں دو پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے۔
نوح ضلع کے پولیس افسر نریندر سنگھ بیجرنیا نے کہا ہے کہ ان مکانات کے خلاف کارروائی کی جائے گی جہاں سے جلوس پر پتھراؤ کیا گیا۔
پولیس کے ترجمان کرشن کمار نے کہا ہے کہ جھڑپوں نے حکام کی توجہ ان مکانات کی جانب بھی مبذول کرائی جن کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ حکام کو معلوم ہوا ہے کہ یہ سرکاری زمین پر غیر قانونی طور پر تعمیر کیے گئے تھے۔
تاہم حکام کا کہنا ہے کہ جن گھروں کو منہدم کیا گیا ان کے بارے میں اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ 200 سے زیادہ مکانات گرائے گئے۔
نوح سے ریاستی اسمبلی میں اپوزیشن پارٹی کانگریس کے رکن آفتاب احمد نے انتظامیہ کی کارروائی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک فوری ٹرائل ہے جس کی قانون اجازت نہیں دیتا۔
انہوں نے کہا کہ یہ اقدام کسی بھی عدالتی سزا سے پہلے لیا گیا۔
حالیہ برسوں میں ان ریاستوں میں حکام نے ’غیرقانونی‘ مکانات کو منہدم کیا جہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔
ان مکانات کے مکینوں پر جرائم کے الزامات لگائے گئے تھے اور زیادہ تر مکانات مسلمانوں کے تھے۔
اس عمل پر بی جے پی کے حامی خوش دکھائی دیتے ہیں تاہم سیاسی حریف اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذمت کی ہے۔