’دل دل پاکستان‘ کا اصل خالق کون تھا، پہلی بار کب گایا گیا؟
’دل دل پاکستان‘ کا اصل خالق کون تھا، پہلی بار کب گایا گیا؟
پیر 14 اگست 2023 5:53
ابن کبیر، کراچی
’دل دل پاکستان‘ کے بعد جنید جمشید نے ’آئیکون‘ کی شکل اختیار کر لی۔ (فوٹو: یوٹیوب)
پی ٹی وی کی تاریخ میں تین بڑے واقعات رونما ہوئے۔ پہلا سنہ 1967 میں شروع ہونے والا کوئز پروگرام ’کسوٹی‘، جس نے تین نسلوں کو متاثر کیا۔
دوسرا واقعہ تھا جولائی 1969میں کراچی مرکز سے شوکت صدیقی کے ناول پر مبنی ڈراما سیریل ’خدا کی بستی‘ کا آغاز، جس نے برصغیر کی ڈراما صعنت کو بدل ڈالا اور تیسرا اگست 1987 میں میوزک بینڈ وائٹل سائنز کے ملی نغمے ’دل دل پاکستان‘ کا نشر ہونا۔
’دل دل پاکستان‘ کو آج پاکستان کا دوسرا قومی ترانہ تصور کیا جاتا ہے۔ ساڑھے تین عشرے گزر گئے، مگر اس کا سحر اب بھی قائم ہے۔ وائٹل سائنز کے سابق رکن اور پی ٹی آئی کے لیڈر، سلمان احمد کے بقول ’یہ کچھ پاکستانی نوجوانوں کے دل کی آواز تھی، جو وقت کے ساتھ پوری قوم کی آواز بن گئی۔‘
’دل دل پاکستان‘ کے بعد وائٹل سائنز کی شہرت کو تو جیسے پر لگ گئے۔ دل اور جاں کے الفاظ ملی نغموں کا لازمی جزو قرار پائے۔ بالی وڈ بھی خود کو روک نہ سکا اور ’دل دل ہندوستان‘ کے عنوان سے اس کا چربہ بنا ڈالا۔
وقت گزرا، مگر اس کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ بی بی سی ورلڈ سروس کی 70 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک پبلک پول میں جب سات ہزار گیتوں میں سے 10 بہترین گیتوں کا انتخاب کیا گیا، تو ’دل دل پاکستان‘ نے اس انتخاب میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔
اس کی اثر پذیری اور مقبولیت کی کئی وجوہات تھیں۔ جیسے جذبہ حب الوطنی کو سہل اشعار اور جدید مغربی موسیقی میں گوندھ کر پیش کرنا، پھر وجیہہ نوجوان گلوکار، ان کا منفرد انداز: یہ سب ناظرین کو بھا گیا۔ سچ تو یہ ہے کہ ’دل دل پاکستان‘ ایک ’کرشمہ‘ بن گیا تھا۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر یہ سوال خصوصی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ اس کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ اس کا شاعر کون تھا اور دھن کس نے ترتیب دی؟
پی ٹی وی پر منعقدہ مقابلہ اور شعیب منصور
عام خیال ہے کہ اس کہانی کا آغاز سنہ 1987 میں ہوا تھا، جب پی ٹی وی کے مختلف مراکز کے درمیان قومی نغموں کا ایک مقابلہ منعقد کیا گیا اور اس مقابلے میں اسلام آباد مرکز نے ’دل دل پاکستان‘ پیش کیا۔ محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کرونیکل‘ اس خیال کی تصدیق کرتی ہے۔ ان کے مطابق ’اسے نثار ناسک نے تحریر کیا تھا اور شعیب منصور نے پیش کیا تھا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’یہ نغمہ ناظرین میں بے حد مقبول ہوا اور اس کے ساتھ وائٹل سائنز گروپ کی شہرت کا بھی آغاز ہوا، جس نے بعد میں پاکستان کے پاپ میوزک میں اہم کردار ادا کیا۔‘
پروفیسر شاہد کمال نے کہا ’دل دل پاکستان‘ کی شاعری روایتی قومی نغموں سے مختلف تھی۔
وائٹل سائنز کے بیس گٹارسٹ اور بانی رکن شہزاد حسن کا برطانوی خبررساں ادارے کو دیا گیا انٹرویو بھی اسی خیال کو تقویت دیتا ہے کہ ’دل دل پاکستان‘ پی ٹی وی پر جشن آزادی کی مناسبت سے منعقدہ مقابلے کا نتیجہ تھا، جو سب سے پہلے شعیب منصور کو سوجھا۔
لاہور میں موجود شعیب منصور نے راولپنڈی میں بیٹھے نوجوان بینڈ سے رابطہ کیا، بول بتائے، دھن یاد کرائی۔ چند روزہ ریہرسل کے بعد آڈیو کی ریکارڈنگ کا مرحلہ طے ہوا، جس کے بعد اسلام آباد میں ویڈیو شوٹ ہوئی۔ اور یوں اس دل پذیر کہانی کا آغاز ہوا۔
شہرت کا سفر اور مقبولیت کی وجوہات
چند ہی روز میں ’دل دل پاکستان‘ کروڑوں دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ شعیب منصور پس منظر میں چلے گئے اور ویڈیو میں نظر آنے والے فن کار منظر پر چھا گئے۔ گو اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا، مگر راتوں رات یہ فن کار شناخت کی منازل طے کر گئے۔ بالخصوص جنید جمشید نے ’آئیکون‘ کی شکل اختیار کر لی۔ وہ جہاں جاتے، ایک ہجوم اکٹھا ہوجاتا۔ لوگ آٹو گراف لیتے، تصاویر بنواتے۔
اس ملی نغمے کی مقبولیت کی وجہ کیا تھی؟
کلاسیکی موسیقی کا ادراک رکھنے والے شاعر پروفیسر شاہد کمال کے مطابق اس کی شاعری روایتی قومی نغموں سے مختلف تھی، اسلوب ماضی سے جداگانہ تھا۔ میوزک ارینجمنٹ جدید تھی۔ اشعار سہل تھے، جو ناظرین کو فوری یاد ہوگئے۔
اُن کے مطابق عوام کو پاپ سنگرز سے جذبہ حب الوطنی کے ایسے خوبصورت اظہار کی توقع نہیں تھی، گویا یہ ان کی توقع کے برعکس تھا، سو اس نے فوری توجہ حاصل کر لی۔
پروفیسر شاہد کمال کا کہنا تھا کہ شہرت عارضی شے ہے، اس ملی نغمے کے حصے میں مقبولیت آئی، کیوںکہ اس گیت کو قبول کیا گیا اور یہ آج بھی زندہ ہے۔
ابصار احمد کے مطابق نثار ناسک کا لکھا ہوا گیت ’دل دل پاکستان‘ پہلی بار 1967 میں ریڈیو پاکستان، راولپنڈی سے بچوں کے ایک پروگرام میں پیش کیا گیا۔
یہ گیت کس شاعر کے ذہن کی اختراع تھا؟
یہ تو طے ہے کہ ’دل دل پاکستان‘ کے بول معروف شاعر نثار ناسک کے قلم سے نکلے تھے، مگر یہ گیت کب لکھا گیا؟ اور اسے پہلے پہل کب پیش کیا گیا؟ اس بارے میں ابہام پایا جاتا ہے۔
عام خیال ہے کہ سنہ 1987 میں جب شعیب منصور نے اس کی دھن ترتیب دی، تب ہی نثار ناسک نے اس گیت کو صحفہ قرطاس پر اتارا۔ چند برس قبل نثار ناسک سے متعلق ’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے شاعر اور صحافی، انوار فطرت نے بھی لگ بھگ یہی موقف اختیار کیا تھا۔ ان کے بقول ’ایک بار شعیب منصور نثار ناسک سے ملے، تو زبانی ایک دھن کے چند ٹکڑے سنائے اور کہا کہ اس پر ملی نغمہ بنانا چاہتا ہوں، وہیں بیٹھے بیٹھے نثار ناسک نے قلم نکالا اور چائے کا کپ خالی ہونے تک دل دل پاکستان نغمہ لکھا جا چکا تھا۔‘
مگر ملی نغموں پر تحقیق کرنے والے محقق ابصار احمد جو کہانی سناتے ہیں، وہ ذرا مختلف ہے۔
ابصار احمد کے مطابق جنید جمیشد نے سنہ 1999 میں پی ٹی وی کے ایک پروگرام ’مڈل ایسٹ ٹائمز‘ میں یہ کہا تھا کہ بچپن سے ان کے ذہن میں خواہش تھی کہ اگر زندگی نے موقع دیا، تو وہ دو گیت ’دل دل پاکستان‘ اور ’قسم اس وقت کی‘ کو دنیا کے سامنے پیش کریں گے۔
تو کیا یہ گیت کم سنی ہی سے جنید جمیشد کے ذہن میں جڑ پکڑ چکا تھا؟ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟
ابصار احمد کے مطابق نثار ناسک کا لکھا ہوا گیت ’دل دل پاکستان، جاں جاں پاکستان‘ پہلی بار سنہ 1967 میں ریڈیو پاکستان، راولپنڈی سے بچوں کے ایک پروگرام میں پیش کیا گیا۔ تب بچوں نے کورس میں اسے گایا تھا۔ اتفاق سے اس پروگرام میں ننھے جنید جمشید اپنے والد سکواڈرن لیڈر جمشید انور کے ساتھ موجود تھے، جو پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔ اور شاید تب ہی یہ نغمہ جنید کے ذہن میں بیٹھ گیا۔
پی ٹی وی نے نثار ناسک کو ان کی خدمات پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
ابصار احمد کے مطابق سنہ 1967 میں یوم دفاع کی دوسری سالگرہ کے موقع پر راولپنڈی سٹیشن سے پیش کردہ اس گیت کی ریکارڈنگ ریڈیو راولپنڈی کے ریکارڈز میں موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنہ 1983 میں نثار ناسک کی بچوں کے لیے لکھی نغموں کی ایک کتاب شائع ہوئی تھی، اس میں بھی یہ گیت موجود ہے، جو ریڈیو پاکستان کے لیے لکھا گیا تھا۔ پہلے نغمے کے اشعار یوں تھے:
اپنی ہے زمیں اپنا آسماں
ایسے جہاں سے جانا اب کہاں
بڑھتی رہے روشنی کی ہر کرن
ہر دل میں رہے بس یہی لگن
دل دل پاکستان
جاں جاں پاکستان
گو اشعار تو زیادہ تبدیل نہیں ہوئے، مگر ابصار احمد کے مطابق سنہ 1987 میں پیش کردہ ملی نغمے کی دھن یکسر مختلف ہے، وہ بچوں کا روایتی کورس تھا، جب کہ شعیب منصور کی پیش کش میں آنے والا نغمہ پاپ میوزک پر مشتمل تھا۔
ابصار احمد کے موقف سے جو تصویر ابھرتی ہے، اس سے یہ خیال جنم لیتا ہے کہ یہ ملی نغمہ سنہ 1967 ہی میں سامنے آ گیا تھا اور کسی نہ کسی شکل میں نوجوان جنید جمشید کے ذہن میں موجود تھا، وہ اسے نیا روپ دینا چاہتے تھے، یقیناً انہوں نے اس کا تذکرہ دیگر افراد سے کیا ہو گا، البتہ اس کی موجودہ دھن، اس کی آڈیو ریکارڈنگ اور اس کی ویڈیو کی تشکیل کے پیچھے شعیب منصور کا تخلیقی ذہن کارفرما تھا۔
اس پورے معاملے کا جائزہ لینے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ جو بھی انسان اس گیت سے جڑا، وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا، سوائے ایک شخص کے اور یہ تھے اس کے گیت نگار نثار ناسک۔
نثار ناسک کون تھے؟
پاکستان کو ’دل دل پاکستان‘ جیسا لازوال نغمے دینے والے نثار ناسک 15 فروری 1943 کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ وہ ترقی پسند نظریات کے حامل ایک قلم مزدور تھے۔ ساری زندگی لکھنے پڑھنے میں صرف کی۔ یوں تو افسانے بھی لکھے، مگر اصل شناخت شاعری بنی۔ اردو اور پنجابی، دونوں زبانوں میں اشعار کہے۔ ریڈیو پاکستان سے وابستہ رہے، پی ٹی وی کے لیے بھی کام کیا۔ پی ٹی وی نے نثار ناسک کو ان کی خدمات پر لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا۔
ان کے مجموعے ’میں چوتھی سمت آ نکلا‘ اور ’دل دل پاکستان‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ آخری برسوں میں بیماری اور غربت نے انہیں پریشان رکھا۔ طویل عرصے علیل رہے۔ راولپنڈی میں تین جولائی 2019 کو ان کا انتقال ہوا۔
آج نہ تو نثار ناسک دنیا میں ہیں، نہ ہی جنید جمشید، البتہ ان فن کاروں کا دیا ہوا گیت پاکستان کی گلی گلی میں گونج رہا ہے۔ اس نے ثقافتی ورثے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ ان دونوں فن کاروں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا اکلوتا طریقہ یہی ہے کہ انہیں یاد رکھا جائے۔