Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بوٹا سنگھ کی پریم کہانی: کسی سحر انگیز داستان سے کم نہیں

لیاقت نہرو معاہدے کے تحت زینب چونکہ اغوا ہوئی تھی تو اسے پاکستان لے جانے کا فیصلہ ہوا۔ (فائل فوٹو: فلِکر)
جرمن زبان کے بے بدل ناول نگار اور شاعر ہرمن ہیسے نے ایسے ہی یہ نہیں کہا تھا کہ ’میں اگر محبت کے بارے میں کچھ جانتا ہوں تو اس کی وجہ محض تم ہو۔‘
پنجاب میں بھی ایک ایسی ہی کہانی لکھی گئی جس کا ذکر کرنے سے قبل امرتا پریتم کی یادگار نظم سے محض یہ شعر مستعار لے کر آگے بڑھ جائیں گے جس نے تقسیم کے دنوں میں اس دھرتی کی عورت پر روا رکھے گئے جبر کو زبان دی تھی،
اِک دھی سی روئی پنجاب دی توں لِکھ لِکھ مارے وین
آج لکھاں دھیاں روندیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
تقسیم پر بات ہو رہی ہو تو امرتا پریتم کی اس نظم کا یاد آنا فطری ہے کیوں کہ تقسیم کے وقت اس دھرتی کی عورت پر ہونے والی بربریت کو کبھی بھلایا نہیں جا سکتا۔
سنہ 1947 میں ہونے والی تقسیم کے زخم ابھی خشک بھی نہیں ہوئے تھے کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک اور ایسا معاہدہ ہوا جس نے پنجاب میں ایک ایسے المیے کو جنم دیا جسے فراموش کرنا آسان نہیں۔
ہندوستان کے بٹوارے کے دوران ہی راولپنڈی کے عصمت اور امرتسر کی جیتو میں محبت پروان چڑھی مگر تقسیم کے باعث یہ محبت ادھوری رہ گئی اور دونوں کبھی ایک نہ ہو سکے۔
محبت کی یہ ادھوری کہانی زینب اور بُوٹا سنگھ کی داستانِ محبت سے مختلف نہیں جس پر بہت سی فلمیں بن چُکیں اور بُوٹا سنگھ کو ’شہیدِ محبت‘ کا لقب بھی عطا ہو گیا مگر دونوں جیتے جی کبھی ایک نہ ہو سکے۔
محبت کرنا جُرم ٹھہرا تو اس کی وجہ کیا تھی؟
ہندوستان کے بٹوارے کو ابھی تین سال بھی مکمل نہ ہوئے تھے کہ دو اپریل 1950 کو دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم جواہر لعل نہرو اور لیاقت علی خان کے درمیان معاہدہ ہوا۔
اس معاہدے میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف حل طلب امور کے علاوہ اغوا ہونے والی خواتین کی واپسی کے معاملے پر بھی ایک معاہدہ ہوا جس سے تقسیم کے زخم ایک بار پھر تازہ ہو گئے۔
یہ سوال اس وقت جواہر لعل نہرو کے انڈیا میں بھی اہم نہیں تھا کہ ایک خاتون اگر پاکستان یا ہندوستان کو اپنا وطن، اپنی دھرتی قرار دے رہی ہے تو اس کی واپسی کے لیے یہ جتن ہی کیوں؟

نورپور لاہور میں برکی روڈ پر ہڈیارہ گاؤں کے ساتھ ہی واقع ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

یہ معاہدہ بہت سی محبتوں کا قاتل ٹھہرا، زینب چونکہ اغوا ہوئی تھی تو اسے پاکستان لے جانے کا فیصلہ ہوا جو اس وقت تک بُوٹا سنگھ کی دو بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی۔ بُوٹا سنگھ زینب پر جان چھڑکتا تھا اور زینب بھی۔
دونوں کی یہ ادھوری محبت بہت جلد لہو رنگ ہونے جا رہی تھی۔
انگریزی زبان کی عالمی شہرت یافتہ ناول نگار جین آسٹن نے کہا تھا کہ
’خود کو آگ میں جُھلسا لینے کا نام ہی تو محبت ہے۔‘
لدھیانہ کا بُوٹا سنگھ برطانوی فوج کا سابق سپاہی تھا جس نے دوسری جنگِ عظیم میں برما میں خدمات انجام دی تھیں۔
تقسیم کے دوران چناب لہو رنگ ہوا اور صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوئے تو تاریخ کے اس المیے کی سب سے زیادہ قیمت اس دھرتی کی عورت نے ہی ادا کی۔
زینب کو بھی اس وقت کچھ بلوائیوں نے اغوا کر لیا تھا جب وہ اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان جا رہی تھی۔
 بُوٹا سنگھ کو زینب کے اغوا کا پتا چل چکا تھا۔ اس نے زینب کو بلوائیوں سے منہ مانگے داموں میں خرید لیا۔
بُوٹا سنگھ غیر شادی شدہ تھا اور زینب اس کو بھا گئی تھی تو ان دونوں نے شادی کر لی۔

بُوٹا سنگھ کی وکیل رابعہ قاری مال روڈ پر ای پلومر اینڈ سنز نامی سٹور کی بالائی منزل کے اپارٹمنٹ میں رہا کرتی تھیں۔ (فوٹو: اردو نیوز)

بُوٹا سنگھ کی زندگی میں اب ایک عورت آ چکی تھی جس سے جلد ہی اسے محبت ہو گئی یا وہ پہلے سے ہی اس پر مر مٹا تھا، ان کی دو بیٹیاں ہوئیں، تنویر اور دلبیر۔
مسئلہ تو اس وقت پیدا ہوا جب نئے قانون کے تحت مغوی کی تعریف کچھ یوں کی گئی کہ مارچ 1947 میں اگر خاتون کی کسی دوسرے مذہب میں شادی ہوئی ہے تو وہ مغوی تصور ہو گی۔
بُوٹا سنگھ کے ساتھ ان کے اپنے ہی بھتیجے نے دھوکہ کیا جس نے متعلقہ حکام کو زینب کے بارے میں مخبری کر دی جس کا مقصد بُوٹا سنگھ کی جائیداد پر قبضہ کرنا تھا۔
زینب اپنی بیٹی دلبیر کو لے کر پاکستان کے لیے روانہ ہو گئی کیوں کہ قانون نے زینب کی خواہش جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔
زینب نے بڑی بیٹی تنویر کو باپ کے پاس چھوڑا اور کہا کہ ’بچی کا دھیان رکھنا، اور پریشان مت ہونا۔ میں جلد واپس آؤں گی۔‘
زینب کو لاہور کے نواح میں سرحد کے قریب ہی واقع گاؤں نورپور میں اس کے خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔
اور پھر جلد ہی زینب کے رشتہ دار اس پر دوسری شادی کے لیے دباؤ ڈالنے لگے۔
بُوٹا کو اس صورتِ حال کا علم ایک خط کے ذریعے ہوا جو زینب نے اسے لکھا تھا کہ ’وہ جلد پاکستان واپس پہنچ جائے کیوں کہ اُس (زینب) کے رشتہ دار اس کی دوسری شادی کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔‘

زینب کو لاہور کے نواح میں سرحد کے قریب ہی واقع گاؤں نورپور میں اس کے خاندان کے حوالے کر دیا گیا۔ (فوٹو: اردو نیوز)

بُوٹا نے انڈین حکومت سے اپنی اہلیہ اور بچی کو واپس لانے کی درخواست کی جو رَد ہو گئی۔
اُس وقت اس نے ایک دبنگ فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی اراضی فروخت کی، مسلمان ہونے کا فیصلہ کیا اور اپنا نیا نام جمیل احمد رکھ لیا۔
وہ غالباً پُرامید تھا کہ اس کے اس فیصلے پر اس کی زینب اس کو واپس مل جائے گی جو اس کی محض خام خیالی ہی تھی۔
بُوٹا سنگھ کو کچھ نہ سوجھی تو اس نے پاکستان کا رُخ کیا لیکن اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور زینب کی شادی اس کے چچا کے بیٹے سے کی جا چکی تھی۔
بُوٹا کے سب خواب ٹُوٹ چکے تھے مگر وہ ہمت نہیں ہارا۔
زینب تو اس کے جینے کا مقصد تھی۔ بُوٹا سنگھ کا معاملہ عدالت میں بھی زیرِسماعت رہا مگر بُوٹا سنگھ کے لیے یہ کسی زخم سے کم نہ تھا کہ زینب نے بُوٹا سنگھ کو اپنا شوہر ماننے سے انکار کر دیا۔
زینب کے اس بیان پر بُوٹا سنگھ ٹُوٹ گیا، وہ اپنی بیٹی تنویر کو لے کر مقبرہ نور جہاں کی جانب چل دیا، اور ٹرین کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے اپنی بیٹی تنویر کو ایک جانب کھڑا کیا اور خود ٹرین کے آگے کُود گیا۔
شاعر بے بدلؔ شکیل بدایونی نے یوں ہی نہیں کہا تھا، 
اے محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں ترے نام پہ رونا آیا

’شہیدِ محبت بُوٹا سنگھ‘ میں گُرداس مان نے بُوٹا سنگھ اور دیویا دتہ نے زینب کا کردار ادا کیا 

بُوٹا سنگھ اس سلوک کا مستحق نہیں تھا۔ اس کی بڑی بیٹی تنویر اس وقت پانچ برس کی تھی جسے بُوٹا سنگھ کی وکیل رابعہ سلطانہ قاری نے گود لے لیا جو مال روڈ پر ہائی کورٹ کے سامنے ای پلومر اینڈ سنز نامی سٹور کی بالائی منزل کے ایک اپارٹمنٹ میں رہا کرتی تھیں۔
رابعہ قاری جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون مسلمان بیرسٹر اور لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون نائب صدر تھیں۔ ان کے رشتہ دار اب جہلم میں مقیم ہیں۔
بُوٹا سنگھ کی لاش سے اس کی آخری خواہش برآمد ہوئی جو اس کی محبوبہ زینب کے گاؤں نورپور میں دفن ہونے کی تھی مگر زینب کے رشتہ داروں نے بُوٹا سنگھ کو نورپور میں دفن ہونے کی اجازت نہیں دی۔
چناںچہ ریلوے کے حکام نے بوٹا سنگھ کو قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا جہاں آج بھی ریلوے کا پتھر بطور نشانی قبر پر موجود ہے۔
رابعہ قاری نے تنویر کی بہت اچھی پرورش کی اور ان کی دھوم دھام سے شادی کی جس کے بعد وہ لیبیا چلی گئیں اور کچھ عرصہ بعد ان کا رابعہ قاری سے بھی رابطہ ٹُوٹ گیا۔
کچھ ذکر نورپور کا بھی ہو جائے، یہ برکی روڈ پر ہڈیارہ گاؤں کے ساتھ ہی واقع ہے۔

بوٹا سنگھ کو قبرستان میانی صاحب میں دفن کر دیا گیا جہاں آج بھی ریلوے کا پتھر بطور نشانی قبر پر موجود ہے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

سات آٹھ برس قبل جب مصنف نورپور گیا تو زینب کے دوسرے شوہر رانا ظہور سے بھی ملاقات ہوئی جن کے خاندان نے خود لدھیانہ سے ہجرت کی تھی، یہ ملاقات مگر اس دھمکی پر ختم ہوئی کہ ’آپ غنیمت جانیے کہ ہم آپ کو زندہ واپس جانے دے رہے ہیں۔‘
ان کے لیے ایک طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی یہ غیرت کا مسئلہ تھا۔
مصنف گذشتہ دنوں دوبارہ نورپور گیا تو یہ پریشان کن انکشاف ہوا کہ زینب پانچ برس قبل چل بسیں جب کہ رانا ظہور بھی تین برس قبل اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے۔
ان کے بچے اب بھی اس گاؤں میں رہائش پذیر ہیں مگر ان سے بات کرنا آسان نہیں کیوں کہ ماضی کے زخم کُریدنا آسان نہیں ہوا کرتا۔   
بُوٹا سنگھ آج بھی محبت کی علامت ہے۔ قبرستان میانی صاحب میں ان کی قبر کا کوئی وارث نہیں اور یہ قبر تلاش کرنا بھی آسان نہیں تھا مگر کچھ برسوں کی محنت کے بعد بالآخر یہ مل ہی گئی۔ 
پنجاب کی ثقافت کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے کچھ ساتھی اب بُوٹا سنگھ کی قبر کو پختہ کرنے کا سوچ رہے ہیں جو ایک دور میں ’لوورز سپاٹ‘ بن گیا تھا۔

زینب کو اس وقت کچھ بلوائیوں نے اغوا کر لیا تھا جب وہ خاندان کے ساتھ پاکستان جا رہی تھیں۔ (فائل فوٹو: جواہر لعل نہرو میموریل لائبریری)

اس قبر کو پختہ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ بُوٹا سنگھ اور زینب کی اس درد ناک پریم کتھا کی اس واحد نشانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
بُوٹا سنگھ کی دوسری بیٹی دلبیر کور کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ یہ سوال پیدا ہونا فطری ہے کہ کیا بُوٹا سنگھ کی کوئی دوسری بیٹی بھی تھی اور اگر تھی تو وہ کہاں چلی گئی؟
یہ اس پریم بھری کہانی کا اب بھی ایک ادھورا باب ہے۔
بُوٹا سنگھ کی پریم کہانی کسی طور پر رومیو جولیٹ، ہیر رانجھا اور سسی پنوں کی افسانوی داستانوں سے کم سحر انگیز نہیں جس کے کچھ کردار اب بھی زندہ ہیں۔
اس پریم کہانی پر ہالی وڈ، بالی وڈ اور مشرقی پنجاب میں بھی بہت سی فلمیں بنائی گئیں، پنجابی میں بنائی گئی فلم ’شہیدِ محبت بُوٹا سنگھ‘ میں گُرداس مان نے بُوٹا سنگھ اور دیویا دتہ نے زینب کا کردار ادا کیا تھا۔
یہ ایک ایسی پریم کتھا ہے جس سے بہت سی ان کہی اور ناکام محبتوں پر روشنی پڑتی ہے جو حکومتوں اور خاندان کے بڑوں کے باعث پروان نہ چڑھ سکیں۔

شیئر: