Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے رہنما کے جیل میں انتقال کے بعد ہزاروں افراد کا احتجاج

جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنے فیس بک پیج پر دلاور سعیدی کی موت کا اعلان کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں مذہبی پارٹی جماعت اسلامی کے بااثر رہنما کے جیل میں انتقال کے گھنٹوں بعد ہزاروں مشتعل مظاہرین حکومت مخالف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جماعت اسلامی کے 83 سالہ رہنما دلاور حسین سعیدی جنگی جرائم کے الزام میں بنگلہ دیش کے متنازع ٹریبیونل سے سزا کے بعد ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک جیل میں تھے۔
دلاور سعیدی کو جنگلی جرائم کے متنازع ٹریبیونل سے سزا کے بعد بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین پرتشدد واقعات ہوئے تھے۔
ہسپتال کے باہر دلاور سعیدی کے ہزاروں حامیوں نے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کیا۔
احتجاج کرنے والے نعرے لگارہے تھے کہ دلاور سعیدی کے خون کو رائیگان نہیں جانے دیا جائے گا۔
ہسپتال کے حکام کا کہنا تھا کہ دلاور سعیدی کو اتوار کے روز قاسم پور جیل میں دل کا دورہ پڑنے کے بعد ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔
ہسپتال کے ڈائریکٹر برگیڈیئر جنرل رضا الرحمان نے بتایا کہ دلاور سعیدی کو آج مقامی وقت کے مطابق 6 بج کر 45 منٹ پر دوبارہ دل کا دورہ پڑا جس کے بعد 8 بج کر 40 منٹ پر ان کا انتقال ہوگیا۔
جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنے فیس بک پیج پر دلاور سعیدی کی موت کا اعلان کیا۔ جماعت اسلامی نے حکام پر الزام عائد کیا کہ سعیدی کو علاج سے محروم رکھ کر ’شہید کیا گیا۔‘
دلاور سعیدی کو جنگی جرائم کے متنازع ٹریبیونل نے 2013 میں قتل، ریپ اور اور ہندوں کو ہراساں کرنے کے الزامات میں سزائے موت دی تھی جس کے بعد جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکنان نے ملک گیر احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

سیاسی تجزیہ نگار جماعت کو ایک بڑی سیاسی قوت بنانے کا کریڈٹ دلاور سعیدی کے خطابات اور تبلیغ کو دیتے ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

جماعت اسلامی  کے مطابق احتجاج کے بعد ہونے والے کریک ڈاؤن میں ان کے لاکھوں کارکنان اور حامیوں کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد رواں سال پارٹی عوامی جلسے کرنے کے قابل ہوئی۔
2014 میں بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے دلاور سعیدی کی سزا کو قید میں تبدیل کرکے ان کو باقی ماندہ زندگی کے لیے جیل میں رکھنے کا حکم دیا تھا۔
دلاور سعیدی 1980 کی دہائی میں اس وقت مشہور ہوگئے جب انہوں نے بنگلہ دیش کی صف اول کی مساجد میں وعظ اور خطاب کرنے لگے۔
ان کے عروج کے دنوں میں  لاکھوں لوگ ان کا خطاب سننے کے لیے جمع ہوتے تھے اور ان کے خطابات کی سی ڈیز سب سے زیادہ بکتے تھے۔
ان کے قرآن کلاسز میں جماعت اسلامی کے حامیوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی شرکت کرتے ہوتے تھے۔
جماعت اسلامی پر بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دورن پاکستان کی حمایت کرنے پر 1970 کی دہائی میں پابندی رہی لیکن 1990 کی دہائی تک یہ ملک کی تیسری بڑی قوت اور سب سے بڑی مذہبی جماعت بن گئی۔
سیاسی تجزیہ نگار جماعت کو ایک بڑی سیاسی قوت بنانے کا کریڈٹ دلاور سعیدی کے خطابات اور تبلیغ کو دیتے ہیں۔

شیئر: