’ہریانہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی‘، پنچایت کو حکومت کا شو کاز نوٹس
’ہریانہ میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی‘، پنچایت کو حکومت کا شو کاز نوٹس
اتوار 13 اگست 2023 7:56
انتظامیہ نے فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف کارروائی کا کہا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
انڈین ریاست ہریانہ کی حکومت نے مسلمانوں کے داخلے پر پابندی عائد کرنے والی پنچایت کے ارکان کو شو کاز نوٹس بھجوائے ہیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 31 جولائی کو ریاست ہریانہ میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے بعد مختلف اضلاع کی پنچایتوں نے قراردار منظور کی ہے جس میں ان کے گاؤں میں مسلمانوں کو داخل ہونے سے روکنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔
ریاستی حکومت نے پنچایت کے متعدد ارکان اور سرپنچوں کو ہریانہ گرام پنچایتی راج ایکٹ کے سیکشن 51 کے تحت شو کاز نوٹس بھیجا ہے جس کی بنیاد پر ارکان یا سربراہ کو برطرف کیا جا سکتا ہے۔
ریواری شہر کے ڈپٹی کمشنر محمد عمران رضا نے تصدیق کرتے ہوئے انڈین ایکسپریس کو بتایا کہ گرام پنچایت اور ان کے سرپنچوں کے خلاف انتظامی کارروائی کی گئی ہے، وہ اپنا جواب جمع کروائیں گے جس کا جائزہ لیا جائے گا۔
غیرتصدیق شدہ رپورٹس کے مطابق ضلع ریواری کی چند پنچایتوں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے تاہم پولیس نے اسے حساس معاملہ قرار دیتے ہوئے معلومات دینے سے انکار کیا ہے۔
ریاست کے اعلٰی حکام کا کہنا ہے کہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی میں خلل پیدا کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
ہریانہ کے ضلع نوح میں ہونے والے ہندو مسلم فسادات کے ردعمل میں ضلع ریواری، جھاجھر اور مہیندر گھڑھ میں پنچایتوں نے قرارداد منظو کی ہے جس کے تحت ان کے علاقے میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی ہوگی۔
ہریانہ ڈیولپمنٹ اور پنچایت کے وزیر دویندر سنگھ نے کا کہنا ہے کہ وہ معاملے سے واقف ہیں اور کچھ لوگوں نے اس قسم کی قراداد منظور کی ہے تاہم ضلعی انتظامیہ کو واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ قانون میں اس قسم کے اقدامات کی اجازت نہیں ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
ان اضلاع کی پنچایتوں کا مؤقف ہے کہ اس قراداد کا مقصد دکانداروں کی ذاتی معلومات کی تصدیق کرنا ہے جس میں اکثریت کا تعلق مسلمان کمیونٹی سے ہے تاکہ جانوروں کی چوری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکا جا سکے اور نوح میں پیدا ہونے والے حالات کے بعد کسی بھی ایسی صورتحال سے بچا جائے۔
اس سے قبل بدھ کو ہریانہ کے شہر حصار میں کسان پنچایت کے رہنماؤں نے ایک بیٹھک رکھی تھی جس میں اپنے علاقے میں بسنے والے مسلمانوں کی حفاظت کا اعادہ کیا تھا۔
اس بیٹھک میں تقریباً دو ہزار ہندو، مسلمان اور سکھ کسانوں نے شرکت کی تھی۔