Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ قانون بنے یا نہیں؟

صدر کے بیان کو وزارت قانون نے تشویشناک قرار دیا ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
اتوار کے روز پاکستان میں اُس وقت ایک نئے آئینی بحران نے جنم لیا ہے جب صدر مملکت عارف علوی نے ایک بیان کے ذریعے کہا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے اور ان کے عملے نے ان قوانین کے مسودوں کو واپس بھجوانے کے اُن کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ 
دوسری طرف وزارت قانون و انصاف نے ان کے اس بیان کو تشویشناک قرار دے کر مسترد کر دیا اور اپنے رد عمل میں کہا کہ صدر نے جان بوجھ کر ان قوانین کی منظوری میں تاخیر کی اور اگر ان کو اس معاملے پر تحفظات تھے تو وہ پریس ریلیز کے ذریعے اس سے آگاہ کر سکتے تھے۔ 
وزارت قانون کی طرف سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آئین کے آرٹیکل 75 کے مطابق جب کوئی بل منظوری کے لیے بھیجا جاتا ہے تو صدر مملکت کے پاس دو اختیارات ہوتے ہیں، یا تو بل کی منظوری دیں یا مخصوص تحفظات کے ساتھ معاملہ پارلیمنٹ کو واپس بھیج دیں، آرٹیکل 75 کوئی تیسرا آپشن فراہم نہیں کرتا۔‘ 
’اس فوری نوعیت کے معاملے میں کسی بھی اختیار پر عمل نہیں کیا گیا بلکہ صدر مملکت نے جان بوجھ کر منظوری میں تاخیر کی۔ بلوں کو تحفظات یا منظوری کے بغیر واپس کرنے کا اختیار آئین میں نہیں دیا گیا، ایسا اقدام آئین کی روح کے منافی ہے۔‘ 
وزارت قانون کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اگر صدر مملکت کے بل پر تحفظات تھے تو وہ اپنے تحفظات کے ساتھ بل واپس کر سکتے تھے جیسے کہ انہوں نے ماضی قریب اور ماضی میں کیا، وہ اس سلسلے میں ایک پریس ریلیز بھی جاری کر سکتے تھے۔  
پاکستان کے وکلا اس صورتحال کو سنگین قرار دے رہے ہیں اور اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے سو موٹو کاروائی یا اعلٰی سطحی تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ 
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صدر کے بیان کے بعد یہ بات واضح ہے کہ یہ دونوں قوانین نہیں بنے اور اگر عدالتوں میں اس کو نافذ العمل کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ غیر قانونی ہے۔  
انہوں نے بتایا کہ ’صدر مملکت کو اختیار ہے کہ وہ کسی مسودہ قانون کو رد کر کے اس کو 10 دن کے اندر پارلیمان کو واپس بھجوا دے یا پھر اس پر دستخط کر کے قانون کی منظوری دے جس کے بعد وہ نافذ العمل ہو جائے گا۔‘ 
عابد زبیری کے مطابق ’اب اگر صدر یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اس مسودے پر دستخط نہیں کیے اور ان کو دھوکہ دے کر اس قانون کو نافذ العمل کیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ قانون نہیں بنا اور اگر اس کے تحت کوئی بھی کارروائی ہوتی ہے تو وہ غیر آئینی اور غیر قانونی ہو گی۔‘ 
سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ ’اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ صدر خود ایوان صدر میں محصور ہیں۔ وہ آزاد اور با اختیار نہیں رہے۔  اگر انہوں نے ان قوانین پر دستخط نہیں کیے اور پھر بھی ان کو قوانین بنا دیا گیا تو یہ سنگین جرم ہوا ہے۔‘ 
 عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اس معاملے میں مداخلت کرنی چاہیے اور فوری طور پر سو موٹو لیتے ہوئے اس کی تحقیقات کرنی چاہییں۔ 
ایک اور سینیئر قانون دان عارف چوہدری نے اس معاملے پر اعلٰی سطح کی کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔  

دونوں بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو دستخط کے لیے بھجوائے گئے تھے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک صورت یہ ہے کہ ان قوانین پر دستخط نہیں ہوئے اور واپس ہو گئے ہیں، دوسری یہ ہے کہ واپس نہیں آئے اور معینہ مدت تک صدر مملکت کے پاس موجود رہے ہیں جس کے بعد یہ ازخود قوانین بن گئے ہیں۔ لیکن یہاں ایک تیسری صورت ہے کہ صدر کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے قوانین کو غیر موثر بنانے کے لیے انہیں واپس بھجوانے کا حکم جاری کیا جو نہیں مانا گیا۔‘ 
انہوں نے کہا کہ اس صورت میں معاملہ انتہائی گھمبیر ہو گیا ہے اور اس کی تحقیقات کے لیے فوری طور پر اعلٰی سطح کی کمیٹی بننی چاہیے۔
عارف چوہدری نے کہا کہ صدر کے اس بیان کے بعد اگر ان قوانین کو نافذ العمل کیا گیا ہے اور ان کے تحت کوئی کارروائی ہو رہی ہے تو وہ غیر قانونی ہے۔ 
گزشتہ روز سنیچر کو مقامی میڈیا پر یہ خبر چلی تھی کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے آفیشل سیکرٹ (ترمیمی) بل 2023 اور پاکستان آرمی (ترمیمی) بل 2023 پر دستخط کر دیے ہیں جس کے بعد دونوں مجوزہ بل قانون کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں۔ 
اگست کے ہفتے پہلے یہ دونوں بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت کو دستخط کے لیے بھجوائے گئے تھے۔ 
پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت سرکاری حیثیت میں ملکی سلامتی و مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو پانچ سال تک سخت قید کی سزا دی جا سکے گی۔   
آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل سینیٹ میں سابق وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے پیش کیا تھا جس کے تحت آرمی ایکٹ میں متعدد ترامیم کی گئیں اور نئے سیکشن شامل کیے گئے۔ 
نئے قانون کے تحت کوئی بھی ایسا فرد جو سرکاری حیثیت میں غیر مجاز طریقے سے ملکی سلامتی سے متعلقہ سرکاری راز افشا کرے گا تو اسے پانچ سال تک سزا دی جا سکے گی۔ تاہم آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے انکشاف کرنے والے کو سزا نہیں ہو گی۔   
اس قانون کے تحت پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔ 

شیئر: